• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 ستمبر سے جب سے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور آذربائیجان نے 26 سال کے طویل صبر و تحمل کے بعد اپنے چھ مقبوضہ علاقوں کو آرمینیا کے قبضے سے آزادکروایا ہے پاکستان کے سوشل میڈیا پر #Azerbaijan Is Not Alone ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور خاص طور پر پاکستانی وزراتِ دفاع کی جانب سے ’’ ایک ملت تین ریاستیں‘‘ کے زیر عنوان آذربائیجان سے یکجہتی کا جو پیغام دیا گیا ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بلکہ ترکی اور آذربائیجان کے عوام میں بھی ایک نیا جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کا مسئلہ ہے کیا ؟ 1922ء میں آذربائیجان اور آرمینیا کے سوویت یونین کا حصہ بننے کے ایک سال بعد سوویت یونین نے بالائی قارا باغ کے علاقے کو آذربائیجان سے منسلک کرکے اسے نیم خودمختار علاقے کا اسٹیٹس دے دیا جبکہ آرمینیا نے اس اسٹیٹس کو دل سے قبول نہ کیا لیکن سوویت یونین کی حاکمیت میں خاموشی کو بہتر سمجھا۔ اسی کی دہائی میں سویت یونین کے انہدام کے بعد قارا باغ میں آباد آرمینی اکثریت جو کہ 70فیصد کے لگ بھگ تھی نے آذربائیجان سے علیحدگی اور آزادی کا مطالبہ کردیا جس پر 18اکتوبر1987میں علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، آرمینی اکثریت نے آذری اقلیت کو علاقے سے نکال باہر کیا اور آذری ترک اپنی ہی سرزمین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1991 میں سویت یونین سے اپنی آزادی کا اعلان کرنے والے ملک آذربائیجان نے قارا باغ کے نیم خود مختار اسٹیٹس کو ختم کرتے ہوئے اسے اپنا حصہ بنالیا جبکہ 10دسمبر 1991کو قارا باغ کی علاقائی اسمبلی نے ریفرنڈم کرواتے ہوئے (جس کا آذربائیجان نے بائیکاٹ کردیا) اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ 1992میں اپنی آزادی کا اعلان کرنے والا ملک آرمینیا واحد ملک تھا جس نے قارا باغ کی آزادی کے اعلان کو قبول کیا۔اس کے بعد جھڑپوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور آرمینی دستوں نے 1992میں ’’حوجہ ایلی‘‘ میںسینکڑوں آذری باشندوں کو ہلاک کردیا اور اپنی سرحدوں سے ملنے والے آذربائیجان کے علاقے پر بھی قبضہ کرلیا اور یوں قارا باغ کا رابطہ آرمینیاسے براہ راست قائم ہوگیا۔دو سال تک جاری رہنے والی اس غیر اعلانیہ جنگ میں تیس ہزار کے لگ بھگ انسان مارے گئے۔ 1994میں دونوں ممالک کے درمیان ’’ بشکیک‘‘پروٹوکول کے تحت فائر بندی قائم ہوئی۔ اگرچہ اس فائر بندی سے جنگ باقاعدہ طور پر تو ختم نہ ہوئی ،جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور اسی دوران آرمینیا نے قارا باغ کے ساتھ اپنی راہداری کے ذریعے بڑا مضبوط رابطہ قائم کرلیا۔ 1994میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے OSCEکے تحت امریکہ، روس اور فرانس کی نگرانی میں منسک گروپ قائم کیا گیا جس میں ترکی، جرمنی، اٹلی اور بیلا روس بھی شامل تھے، ان دونوں ممالک کے درمیان دس سال تک مذاکرات کے کئی راونڈ ہوئے مگر کوئی نتیجہ حاصل نہ کیا جاسکا۔ اسی دوران تیل اور گیس کی دولت سے مالا ملک آذربائیجان نے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ترکی کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو بہت مضبوط بنایا اور دونوں ممالک کے ساتھ تعاون کے کئی ایک سمجھوتے بھی کئے پاکستان نے بڑی تعداد میں ان سمجھوتوں کے تحت فوجی تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا جبکہ ترکی اور آذربائیجان جو دونوں ترک النسل ہیں، ترکی نے آذربائیجان کی فوج کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرتے ہوئے آذربائیجان کو آرمینیاکے مقابلے میں فوجی لحاظ سے طاقتور ملک بنادیا۔ یہاں پر اگر ایران کی بات کی جائے تو ایران کھل کر آرمینیا کی حمایت اور امداد کا سلسلہ جار ی رکھے ہوئے ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ ایران کو آذر بائیجان کی آزادی سے خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ اس کے باشندے (آذری ترک) آذربائیجان کی حمایت کررہے ہیں ۔جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں پاکستان شروع دن ہی سے آذربائیجان کی حمایت اور مدد کرتارہا ہے۔ آذربائیجان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے اس سے نصف گھنٹہ قبل ترکی نے آذربائیجان کو تسلیم کرلیا تھا۔ آذربائیجان کے عوام پاکستان اور پاکستان کے عوام کو جس طریقے سے چاہتے ہیں اور ان کو بلند مقام اور اہمیت دیتے ہیں شاید ہی ترکوں کے علاوہ کوئی اور قوم ایسا کرتی ہو اور یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے آذر بائیجان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا اور پھر وزارتِ دفاع کی جانب سے پاکستان، ترکی اور آذربائیجان ’’ایک قوم تین ریاستیں‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر آذربائیجان کو ہر ممکنہ فوجی امداد دینے کا اعلان کیا گیا تو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کی عمارتوں پر ایک ساتھ ترکی، پاکستان اور آذربائیجان کے پرچم لہراتے ہوئے دکھائی دئیے جس کوپاکستان میں آذربائیجان کے سفیر نے اپنے ٹوئٹ اکاونٹ سے شئیر بھی کیا۔

آخر میں اتنا عرض کرتا چلوں اس وقت پاکستان کے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ بڑے گہرے روابط موجود ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئےان تینوں ممالک پر مشتمل آر سی ڈی کی طرز پر ایک منظم ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جو واقعی ایک قوم تین ریاستوں کو مزید ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بنے۔

تازہ ترین