• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ ایک بار پھر ”بریکنگ نیوز“ میں

پاکستانی جیل میں قید بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ آج کل ایک بار پھر ”بریکنگ نیوز“ میں ہے۔ گزشتہ 22 سالوں سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید سزائے موت کے منتظر سربجیت سنگھ کو جمعہ کو اس کے ساتھی قیدیوں نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب اسے کال کوٹھڑی سے چہل قدمی کیلئے باہر لے جایا گیا۔ سربجیت کو زخمی حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے اور اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ سربجیت سنگھ وہ قیدی ہے جو وقتاً فوقتاً میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتا رہا ہے۔ کچھ ماہ قبل وہ اس وقت ”بریکنگ نیوز“ میں رہا جب میڈیا نے یہ خبر دی کہ ”صدر پاکستان نے سربجیت سنگھ کی سزائے موت معاف کرکے اسے رہا کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں“۔ اس خبر پر سربجیت کے گھر سمیت پورے بھارت میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جبکہ پاکستان میں وہ خاندان جن کے پیارے سربجیت کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے غم و غصے کا شکار تھے تاہم عوامی دباؤ میں اسی رات صدارتی ترجمان نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”جس قیدی کو رہا کیا جارہا ہے وہ سربجیت سنگھ نہیں بلکہ سرجیت سنگھ ہے“۔
امرتسر سے تعلق رکھنے والے بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے1990ء میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ لاہور، قصور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرنے کے بعد واہگہ بارڈر کے راستے بھارت فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ واضح ہو کہ سربجیت سنگھ کے کئے گئے بم دھماکوں میں 14/افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ دوران تفتیش سربجیت نے ان بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے1991ء میں اسے موت کی سزا سنائی تھی جسے لاہور ہائیکورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ جس کے بعد سربجیت کے اہل خانہ نے اس کی معافی کیلئے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کو درخواست دی جو انہوں نے مسترد کردی تھی۔ سربجیت کو مئی 2008ء میں پھانسی دی جانی تھی لیکن 3 مئی کو حکومت پاکستان نے پھانسی پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے اور صدر پاکستان کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہونے کے باوجود سربجیت سنگھ کے معاملے کو اتنا طول دینے اور عدالتی سزا پر عملدرآمد نہ کرنے میں حکومت کی کیا مصلحت تھی۔ اس کے برعکس بھارتی حکومت اپنی اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے سنائے جانے والے سزائے موت کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کرتی ہے جس کی حالیہ مثال کشمیری نوجوان افضل گرو اور ممبئی بم دھماکے کے ملزم اجمل قصاب کو دی جانے والی سزائے موت ہے۔ ایک طرف بھارتی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سربجیت سنگھ گزشتہ2عشروں سے پاکستانی جیل میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر چکا ہے اس لئے وہ رحم کا مستحق ہے اور ایسے شخص کو آپ سولی پر چڑھا کر ان لوگوں کو دنیا میں واپس نہیں لاسکتے جو اس کے کئے گئے بم دھماکوں میں موت کے منہ میں چلے گئے ہوں۔ دوسری طرف سربجیت کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کے لواحقین اس دلیل کو ماننے کو تیار نہیں اور وہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر سربجیت سنگھ کو رہا کیا گیا تو وہ خود سوزی کرلیں گے۔ بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کا معاملہ سرجیت سنگھ اور کشمیر سنگھ سے مختلف ہے کیونکہ سرجیت اور کشمیر سنگھ کی کارروائیاں محض جاسوسی تک محدود تھیں جبکہ سربجیت سنگھ کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کئی بے گناہ لوگ مارے گئے تھے۔
جیلوں میں قیدیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ایک معمول کا حصہ ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے مگر اس واقعے کو پاکستانی میڈیا پر”بریکنگ نیوز“ کے طور پر پیش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے بھی سربجیت پر حملے کی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کے نتیجے میں دباؤ کا شکار ہوکر بھارت میں پاکستانی سفارتخانے نے راتوں رات سربجیت کی بیوی، 2 بیٹیوں اور بہن کو پاکستان کیلئے ایمرجنسی ویزے جاری کئے، یہ افراد جب واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تو ایک بار پھر ان کی آمد کو ”بریکنگ نیوز“ کے طور پر پیش کیا گیا۔ پاکستان پہنچنے کے بعد سربجیت کی فیملی نے اسپتال میں اس کی عیادت کی اور حکومت پاکستان سے سربجیت کو بیرون ملک بھیجنے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ملالہ کو سنگین حالت میں بیرون ملک لے جاکر اس کا علاج کرایا جاسکتا ہے تو سربجیت کو کیوں نہیں باہر بھیجا جاسکتا۔ اس سے قبل سربجیت کی بہن دلبیر کور نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ جیل میں اس کے بھائی پر حملہ کرانے والے سرکاری لوگ ہیں کیونکہ ان کا بھائی ایک ہائی پروفائل قیدی ہے اور حساس نوعیت کی حیثیت رکھتا ہے تو اسے عام قیدی کیسے زدوکوب کرسکتے ہیں، اس میں ضرور کوئی اور طاقت ملوث ہے تاہم ابھی میں کسی ادارے کا نام نہیں لوں گی۔ سربجیت کی بہن کا مزیدکہنا تھا کہ ان کے بھائی کے ساتھ ہونے والے سلوک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں کوئی شخص محفوظ نہیں، جیل حکام نے کس کے اشارے پر حملہ کرایا یہ ہم ضرور جاننا چاہتے ہیں۔
پاکستانی جیل میں بھارتی جاسوس سربجیت پر حملہ ہونا ایک افسوسناک امر ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے۔ بالفرض اگر سربجیت سنگھ کی موت واقع ہوجاتی ہے تو بھارت اسے پاکستان کیخلاف عالمی سطح پر منفی طور پر استعمال کرے گا اور ایک دہشت گرد کو ”بے گناہ“ کے طور پر پیش کرکے عالمی ہمدردیاں حاصل کرے گا جبکہ پاکستانی ایجنسیوں کو واقعے کا ذمہ دار قرار دے کر اس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کرے گا کہ سربجیت سنگھ پر حملے میں پاکستانی ایجنسیاں ملوث تھیں جو اس کی رہائی نہیں چاہتی تھیں۔ بھارت ہمیشہ سرجیت سنگھ، کشمیر سنگھ اور سربجیت سنگھ جیسے جاسوسوں کو معصوم قرار دیتا رہا ہے لیکن ان دہشت گردوں کے اعتراف جرم کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ بھارت پاکستان میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیاں کراتا ہے۔
سربجیت پر تشدد کے واقعے کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں پاکستان مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔بھارتی میڈیا اور دائیں بازو کی جماعتوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ بھارتی وزیراعظم نے بھی سربجیت پر حملے کو افسوسناک قرار دیا ہے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان میں قید بھارتی شہری کو بھارت واپس لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے وقت میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی بیرونی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے سربجیت سنگھ کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کے ورثا کے جذبات کو ملحوظِ خاطر رکھے کیونکہ سربجیت کے ہاتھ 14/افراد کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین