• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بظاہر تو یہ خبر ”نظریہٴ سازش“ اور ہر معاملے میں امریکی ہاتھ دیکھنے والے ذریعہ اور ذہن کی اختراع نظر آتی ہے لیکن29/اپریل کے ”نیوپارک ٹائمز“ میں شہ سرخیوں اور چشم کشا تفصیلات اور انکشافات پر مبنی اس خبر کی تصدیق افغان صدر حامد کرزئی نے فوراً ہی کر دی جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی ”نیو یارک ٹائمز“ کی خبر کی تصدیق یا تردید سے گریز کرتے ہوئے صحافیوں کے کئی سوالات کو ٹالنے کی ناکام کوشش کی۔ آخر کار یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ اس خبر اور رقم کا معاملہ میرے امریکی محکمہ خارجہ سے نہیں ہے۔ چونکہ خبر میں ہر ماہ نقد ڈالروں کی شکل میں کسی حساب کتاب، کریڈٹ یا قرضہ شرائط یا بینک اور تحریر میں لائے بغیر کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کے صدارتی محل میں بکسوں اور بیگ میں بھر کر پہنچائی جاتی تھیں اور یہ کام امریکی سی آئی اے گزشتہ دس سال سے زائد عرصہ سے کرتی چلی آرہی ہے لہٰذا امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان اپنے محکمہ سے غیر متعلقہ معاملہ قرار دے کر بچ گئے جبکہ امریکی سی آئی اے کی اسٹینڈرڈ پالیسی ہے کہ وہ اپنے بارے میں کسی بھی اچھی یا بری ،سچی یا چھوٹی خبر پر کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کرتی لہٰذا افغان صدر حامد کرزئی کی تصدیق اور مختلف مقاصد کے لئے اس نقد رقم کے استعمال کرنے کے بیان اور امریکہ کا شکریہ ادا کرنے سے خبر کی صداقت بالکل واضح ہے اور غور سے امریکی ترجمان کا موقف پڑھنے سے امریکی تصدیق بھی واضح ہو جاتی ہے۔
خبر یوں ہے کہ 2001ء سے ہی طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے افغان جنرل فہیم اور قبائلی سرداروں (وار لارڈز) کو ڈالروں کی شکل میں نقد بھاری رقوم دینے کا سلسلہ سی آئی اے نے شروع کیا اور پھر حامد کرزئی کے محل اور افغان نیشنل سیکورٹی کونسل کے ممبران کو یہ نقد بے حساب ڈالروں کے بیگ فراہم کرنے کا سلسلہ دس سال تک جاری رہا۔ اس خبر اور حامد کرزئی کے مطابق پیکٹوں اور پلاسٹک تھیلوں وغیرہ میں نقد ڈالر بھر کر افغان صدراتی محل کو ہر ماہ امریکی سی آئی اے کی جانب سے فراہمی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ بہت بڑی ہر ماہ نقد فراہم کی جانے والی رقم افغان جنگ پرخرچ ہونے والی اربوں ڈالر کے علاوہ ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغان صدر کے بعض مشیر نقد ڈالرز کے ان تھیلوں یا بیگ کو ”گھوسٹ منی“ کہتے اور اس کی ڈلیوری یا وصولی کا دونوں جانب کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ اس رقم کا مقصد افغان صدر تک امریکی رسائی قائم رکھنا اور وار لارڈز کو امریکہ کا حامی بنانا اور امریکی اثر و نفوذ قائم رکھنا بیان کیا گیا ہے۔ اسی امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق حامد کرزئی کے صدارتی محل پر نقد ڈالروں کی اس ماہانہ بارش میں کئی کئی ملین ڈالر دس سال تک برسانے کے باوجود نہ افغانستان میں امریکی اثر قائم ہو سکا اور نہ ہی اس ڈالروں کی بارش کے مقاصد حاصل ہو سکے بلکہ اس کے باعث افغانستان میں کرپشن پھیلی۔ کرزئی حکومت کو کرائم سنڈیکیٹ ”یعنی جرائم پیشہ منظم گروہوں کے پنجے میں جکڑ دیا گیا اور واشنگٹن کی افغانستان سے نکلنے کی پالیسی میں بھی دشواریاں پیدا ہوئیں۔ اس رقم کی فراہمی پر امریکی امداد اور اخراجات والا کوئی امریکی قانون بھی لاگو نہیں ہوتا لہٰذا نہ کوئی حساب اور نہ کوئی احتساب۔ بلکہ اس رقم کی مسلسل دس سال تک فراہمی نے حامد کرزئی کے رویّے کو امریکہ کیلئے خوشامدانہ رویہ بھی بنانے میں کوئی مدد نہیں دی۔ یہ بھی انکشاف ہے کہ امریکیوں کی جانب سے صدر کرزئی اور ان کے عزیزوں اور مشیروں پر ”نقد ڈالروں کی اس بارش“ کی اطلاع پاکر ایرانیوں نے بھی جوابی اقدام کے طور پر اسپورٹس کار میں نقد رقوم بھر بھر کر افغان صدر کو فراہمی شروع کر دی اور یہ سلسلہ بھی کافی عرصہ تک جاری رہا۔ ایرانی خواہشات کے برعکس حامد کرزئی نے جب امریکہ سے اسٹرٹیجک معاہدے پر دستخط کر دیئے تو ناراض ایرانیوں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا۔
نیویارک ٹائمز کی 29/اپریل کی یہ تفصیلی چشم کشا رپورٹ، افغان صدر کرزئی کی تصدیق، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کی اسی تاریخ کی بریفنگ اور امریکی سی آئی اے کی خاموشی سمیت انہیں پڑھنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے سے جنوبی ایشیاء کے پاکستان اور افغانستان کے دس سالہ ماضی کو سمجھنے، ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس کے رویوں اور فیصلوں کو سمجھنے میں نہ صرف بڑی مدد ملتی ہے بلکہ آنے والے حالات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ ابھی تو افغانستان میں تقریباً 50/ارب ڈالر کے اس جدید اسلحہ کو واپس لے جانے یا پیچھے چھوڑ جانے کے امریکی فیصلے کے اثرات بھی سامنے آنا باقی ہیں اور ہاں یہ بھی واضح رہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس نقد ڈالروں کی فراہمی میں سے بعض طالبان کو بھی رقوم کی فراہمی کا مقصد شامل تھا۔ ”نیویارک ٹائمز“ کی اس ہر طرف سے مصدقہ قرار پانے والی رپورٹ کے تناظر میں متعدد سوال ذہن میں آتے ہیں۔
(1) اس بے حساب نقد ڈالروں کی مسلسل فراہمی کو افغان حکمرانوں نے کسی طرح استعمال کیا؟ انہیں مقاصد پر خرچ کیا یا ذاتی دولت جمع کرنے کے انبار لگائے؟
(2) ان تمام ڈالروں کی دولت نے افغان معیشت پر کیا اثر ڈالا؟جنگ کی حالت میں مبتلا افغانستان میں اس قدر ڈالرز اوراربوں ڈالر کے دیگر امریکی اخراجات نے اورکیا گل کھلائے؟
(3) افغانستان سے ان ڈالروں کا بہاؤ اور اثرات پاکستان پر کیا پڑے؟ افغانستان میں تو کرپشن، بدامنی، منشیات کے کاروبار، جرائم کے گروہ اور بہت سے مسائل کو جنم ملا۔
(4) پاکستان میں بدامنی، کرپشن، دہشت گردی، جرائم پیشہ گروہ اور تنظیمیں اسلحہ اور وہ تمام مسائل موجود ہیں جو افغانستان میں ہیں پھر 2014ء میں امریکی افواج کا پاکستان کے راستے محفوظ اور پُرامن انخلاء بھی ضروری ہے جس کے لئے حکمراں طبقے کا تعاون ضروری ہے۔
(5) پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور پاکستان کے شہر، شہری، تنصیبات، انتخابی امیدوار اور سرگرمیاں بھی دہشت گردوں اورجرائم پیشہ گروہوں سے محفوظ نہیں۔
(6) پاکستان میں الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کے مستقبل کی فکر متعلقہ لیڈروں اور ووٹروں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ اس تمام صورتحال میں یہ کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے کن کن مقامات اورکن کن شخصیات پر بھی نقد ڈالروں کی ایسی ہی کوئی بارش یا ڈلیوری بھی ہوئی ہے جیسی ہمسایہ افغان صدر حامد کرزئی کے صدارتی محل اور ان کے قریبی مشیروں پر ہوئی ہے؟ اگر ہمارے وسائل اور جرأت اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر ہیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی امریکی اخبار گزشتہ13/سال کے دوران کے حقائق کو یکجا کرکے ایسی ہی ناقابل تردید رپورٹ پاکستان کے حکمرانوں، بیوروکریٹس اور عسکریوں کے بارے میں شائع کر کے پاکستانی عوام کو یہ آگاہی دے دے کہ ایسی ہی نقد ڈالروں کی بارش کے باوجود پاکستانی حکمراں ٹس سے مس نہیں ہوئے اور پاکستان کے مفاد کیلئے ڈٹے رہے یا پھر وہ اس بارش کے باوجود غریب پاکستان کے اثاثوں کو بھی لوٹ کر باہر لے جانے میں مصروف رہے؟ کاش وہ ڈالروں کی بارش سے مستفید ہو کر بھی حامد کرزئی کی طرح سخت قومی موقف پر ڈٹے پائے جائیں ۔
تازہ ترین