• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کا کوئی شہر اور قصبہ ایسا نہیں رہا جہاں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کو قتل کرنے کی واردات نہ ہوئی ہو۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ انسانی شکل میں ظالم درندے بلاخوف و خطر واردات پر واردات کرتے جا رہے ہیں لیکن اُن کی موثر روک تھام کے لئے کوئی سنجیدہ، سخت اور فوری اقدامات نہیں کئے گئے۔ جب کوئی نیا سانحہ پیش آتا ہے تو حکومتی ارکان، اپوزیشن سخت مذمتی بیانات اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی روایتی بڑھکیں مار کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ نہ اِس بارے میں کوئی موثر قانون سازی کی زحمت گوارہ کی گئی اور نہ ہی سخت قانونی اقدامات۔ اب تو گزشتہ کئی برسوں سے نام نہاد جمہورت کے نام نہاد علمبرداروں کی حکومتیں ہیں، جو عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے اور پارلیمنٹ تک پہنچنے کے دعویدار ہیں اور اپنے آپ کو قوم کے رہنما اور وطن کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں لیکن بشمول موجودہ حکمرانوں کے اِن سب کے ادوارِ حکومت میں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کو قتل کرنے کا بازار گرم رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں تو حد ہی ہو گئی ہے اور قابلِ غور امر تو یہ ہے کہ یہ وارداتیں سب سے زیادہ پنجاب اور کے پی میں ہو رہی ہیں۔

اِن دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے قصور کی معصوم بچی زینب کے نام پر زینب الرٹ بھی بنایا لیکن فائدہ کیا ہوا؟ کیا ایسے اقدامات سے کبھی جرائم کا خاتمہ ہوا ہے؟ یا یہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا حربہ ہے۔ زینب الرٹ کے بعد بھی ذرا شمار تو کریں کہ کتنی زینب اور بچے درندگی کے شکار ہوئے۔ گزشتہ دنوں چارسدہ کے پی میں بھی ڈھائی سالہ زینب درندگی کا شکار ہوئی۔ گھر کے باہر کھیلتی بچی دن دیہاڑے غائب ہوئی اور دوسرے دن قریبی کھیتوں سے اس کی تشدد زدہ لاش ملی۔ چند دنوں کی سخت تگ و دو کے بعد پولیس نے قاتل کو گرفتار کر لیا۔ اِس پر چار سدہ پولیس اور کے پی پولیس تحسین کے قابل ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں جہاں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کو قتل کرنے کی واردات ہوتی ہے، پولیس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ واردات میں ملوث درندوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔ پولیس والے خود بھی بچوں والے ہوتے ہیں اور اُن کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ کون انسان ہوگا جو اِس درد و غم کو محسوس نہ کرتا ہو۔ پولیس تو ایسے درندوں کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے۔ وہ سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو عدالتیں صرف مروجہ و موجودہ قوانین کے تحت سزائیں دے سکتی ہیں۔ اس طرح عدالتیں بھی مجبو ر ہیں۔ پھر ذمہ دار کون ہیں جو ایسے درندوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ارکانِ پارلیمنٹ ہی کر سکتے ہیں۔ جن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکینِ پارلیمنٹ شامل ہیں کہ وہ ایسے جرائم کی بیخ کنی کے لئے سخت ترین قوانین فوری طور پر بنائیں۔ پورے ملک کا مطالبہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کو قتل کرنے والے درندوں کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے۔

لیکن حکومت اس بدترین ظلم کے معاملہ پر بھی مصلحت کا شکار رہتی ہے۔ قصور کی زینب کے والد کا یہی مطالبہ تھا لیکن اس وقت کی حکومت نے اس کو دبائو ڈال کر پریس کانفرنس میں ساتھ بٹھایا اور اس سے نسبتاً نرم گفتگو کرائی گئی۔ بےحسی کی انتہا دیکھیں کہ اِس وقت کے پنجاب کے حکمران اِسی پریس کانفرنس میں ہنستے مسکراتے رہے۔ سانحہ ساہیوال کے لواحقین جن میں مقتولین کے بچے بھی شامل تھے۔ موجودہ وزیراعظم نے بجائے خود تعزیت کے لئے اُن کے پاس جانے اور دلاسہ دینے کے لئے اُن کو وزیراعلیٰ ہائوس بلوایا۔ تعزیت کا یہ انداز شاید ہی کسی نے پہلے کبھی دیکھا ہو۔ بہرحال جس کا کوئی بےگناہ قتل ہو جائے، جن کے معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کی جائے اور قتل کیا جائے، اُس کا غم اور درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اراکینِ پارلیمنٹ کم از کم اِس مقصد کے لئے تو متحد ہو جائیں گے اور پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر فوری طور پر ایسے جرائم کے لئے مصلحت کوشی سے بالاتر ہو کر سخت ترین قانون سازی کریں گے اور یہ کام بلا تاخیر ہونا بہت ضروری ہے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی کی سازش سے آگاہ رہئے!

گزشتہ چند مہینوں سے بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلائی جائے اور اُس کی آڑ میں ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا کو آلودہ کیا جائے اور امن و امان کو تباہ کیا جائے۔ حکومت اور اہم ادارے اس بھارتی سازش سے نہ بےخبر ہیں اور نہ ہی غافل۔ اِس سازش کی متعدد کوششیں ناکام بھی بنائی جا چکی ہیں لیکن ابھی بھی بھارتی کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز کراچی میں معروف عالمِ دین مولانا عادل خان کو شہید کیا گیا۔ یہ بھی اسی بھارتی سازش کی کڑی ہے۔ مولانا عادل خان مذہبی اور مسلکی ہم آہنگی کے علمبردار اور معروف مذہبی شخصیت تھے۔ اُن کے اور اُن کے ساتھی کے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ تمام مسالک کے علمائے کرام کا فرض ہے کہ قوم کو ایک اور متحد رہنے کے لئے عقائد سے بالا تر ہو کر جدوجہد کریں۔ عقائد اگر مختلف ہیں تو کیا ہوا، دین اور مذہب تو سب کا ایک ہے۔ ہم سب ایک اللہ اور خاتم النبیینﷺ اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں۔ دشمن کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔ قوم کو بھی اِس کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور متحد ہو کر دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام اور بھائی چارے کی فروغ ہی ہماری مذہبی اور قومی کامیابی ہے۔

تازہ ترین