• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے میرے کالم کے بعد نہایت ہی محترم محقق، کالم نگار اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود (جن کا میں بہت مداح ہوں اور جن کو تاریخ پاکستان پر ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے ) نے قائداعظم محمد علی جناح کے جگن ناتھ آزاد سے قومی ترانہ تحریر نہ کرائے جانے، ان کا ترانہ موجود نہ ہونے، 14/اگست 1947ء کی رات 12 بجے اس ترانے کو پیش نہ کئے جانے سے آگاہ کیا ہے۔ میں نے ان کے اس نظریئے کی تائید کے لئے مختلف ویب سائٹس کا سہارا لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہوسکتا ہے قائد اعظم نے براہ راست جگن ناتھ آزاد سے کوئی ملاقات نہ کی ہو لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ قائداعظم نے کسی دیگر اہم شخصیت کے توسط سے ان سے رابطہ قائم کرتے ہوئے انہیں یہ ترانہ لکھنے کا کہا ہو کیونکہ زہرہ قدوائی نے اپنی ویب سایٹ ”ونڈ ملز“ میں اس ترانے کو ریڈیو پاکستان سے نشر کئے جانے اور اسے خود اپنے کانوں سے سنے جانے کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں مہرین ایف علی کے 13/اگست 2006ء کو شائع ہونے والے مضمون ”A Tune to Die For “ میں بھی اس ترانے کے موجود ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جگن ناتھ آزاد نے اپنے ایک خط میں بھی اس ترانے کے14/اگست 1947ء کو رات بارہ بجے نشر کئے جانے سے آگاہ کیا ہے اور اپنے اس خط میں اسی ترانے کو پیش بھی کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
اے سرزمینِ پاک !
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
اے سرزمین پاک!
اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند
اپنا وطن ہے آج زمانے میں سربلند
پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند
اپنا عَلم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند
اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک
اے سرزمینِ پاک!
اترا ہے امتحاں میں وطن آج کامیاب
اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب
دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب
ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیضیاب
مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک
اے سرزمینِ پاک!
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیزگام
آزاد، بامراد، جواں بخت شادکام
اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہرناک
اے سرزمینِ پاک!
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
اے سرزمینِ پاک!
اس ترانے کے موجود ہونے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ تحریر کیا تھا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت اسے ایک ملّی ترانے ( جسے جگن ناتھ نے اپنے خط میں ملّی ترانہ ہی قرار دیا ہے ) کے طور پر پیش کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اسے قومی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہوئی ہو یا پھر اس رات کے بعد پھر کبھی نہ بجایا گیا ہو۔ جہاں تک ریڈیو پاکستان لاہور اور ریڈیو پاکستان پشاور سے اسے پیش نہ کئے جانے اور ریڈیو کی لاگ بک میں اس بارے میں کوئی اندراج نہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ بعد میں کسی دور میں جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے تجویز کردہ نام ” جمہوریہ پاکستان“ کو تبدیل کرتے ہوئے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ رکھ دیا گیا بالکل اسی طرح ریڈیو پاکستان کے حکامِ بالا نے بعد کے دور میں اسے لاگ بک سے مٹا دیا ہو۔ میں خود طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں براڈ کاسٹر کے طور پر کام کرچکا ہوں اس لئے مجھے معلوم ہے کہ وہاں پر کسی چیز کو غائب کرنا یا delete کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ویسے بھی ہماری تمام حکومتوں کو ہمیشہ یہ حق حاصل رہا ہے کہ وہ بغیر کسی تحقیق کے کسی بھی چیز کو اسلام کے منافی قرار دے کر اسے نکال باہر کرے۔ جیسے علامہ اقبال کی کتاب
"The Reconstruction of Religious Thought in Islam "
جوکہ ان کے لیکچرز پر مبنی تھی کو پاکستان سے ہی غائب کر دیا گیا۔ کیا ہم نے پاکستان میں اس کتاب پر اس لئے پابندی نہیں لگادی کہ اس میں علامہ محمد اقبال نے مذہب کو ایک الگ نظریئے اور سوچ سے پیش کیا تھا۔ اس قسم کے بہت سی مثالیں ہمارے پاس موجود ہے جنہیں میں کالم کی طوالت کے باعث پیش کرنے سے قاصر ہوں۔
دراصل میں نے اپنا یہ کالم ترکی اور پاکستان میں سیکولرازم کے بارے میں پائی جانے والی مختلف سوچ اور نظریئے کو اجاگر کرنے کے لئے تحریر کیا تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ پاکستان میں جان بوجھ کر سیکولرازم کوغلط معنی پہنائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو اس سیکولرازم کی وجہ سے ابھر کر سامنے آنے والی اہم آہنگی کو قائم نہ ہونے دیا جائے اور ملک میں اسلام کے نام پر اسلام کے ٹھیکیدار اپنی ٹھیکیداری چمکاتے رہیں۔
ہمارے جنگ ہی کے ایک دیگر محترم کالم نگار جناب ثروت جمال اصمعی نے اپنے گزشتہ ہفتے کے ایک کالم میں سیکولرازم کی مخالفت میں جدید جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کو ہدف بنایا اورلکھا ہے کہ ترکی میں اتاترک نے پون صدی تک ترکی کے مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے کاٹ کر سیکولرازم سے جوڑنے کیلئے جبر کا حربہ استعمال کیا۔ یہاں پر عرض کروں کہ اتاترک کو اس وقت جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ حالات پاکستان کے موجودہ حالات سے بھی خراب تر تھے۔ مذہبی لوگوں نے اور مولویوں نے اسلام کے نام پر غیر ملکیوں کے ساتھ سازباز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ غیر ملکیوں کے سازباز ہی کے نتیجے میں ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملی تھی جس کے نتیجے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت ِ عثمانیہ مٹ گئی اور ترک صرف اناطولیہ تک محدود ہو کر رہ گئے۔
یہ اتاترک ہی تھے جنہوں نے اناطولیہ کے باشندوں کو اپنی قیادت تلے جمع کرتے ہوئے آزادی کی جنگ شروع کی تھی اور جس کی ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں نے دل کھول کر نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اپنا سب کچھ اتاترک اور اس کے سپاہیوں پر قربان کردیا تھا۔ اتاترک نے اس وقت ملک کے باشندوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے اورفرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے سیکولرازم کا سہارا لیا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اتاترک کے بعد آنے والی حکومتوں نے اتاترک کے سیکولرازم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جس سے سیکولرازم کے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ عصمت انونو سے لے کر موجودہ حکومت سے قبل تک ملک میں سیکولرازم کے نام پر مذہبی لوگوں پر ظلم و ستم کئے گئے، ان پر نوکریوں کے دروازے بند کردیئے گئے اور ہیڈ اسکارف پہننے والی لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے ہی سے روک دیا گیا جس کی وجہ سے سیکولرازم کو ظلم و ستم کی علامت سمجھا جانے لگا حالانکہ وہ سیکولرازم یکطرفہ اور نام نہاد سیکولرازم تھا۔
ترکی کی موجودہ حکومت نے سیکولرازم کے چہرے پر لگے اس دھبے کو دھونے کی کوشش کی ہے اور اس کا صحیح چہرہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت سیکولرازم پر عملدرآمد کرنے کے لحاظ سے ایک عمدہ مثال ہے۔ ایردوان اور ان کی قیادت میں قائم اس حکومت کی کابینہ میں شامل زیادہ تر وزراء ایک دور میں نجم الدین ایربکان کی سیاسی جماعت کے رکن تھے لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ نجم الدین ایربکان کی کٹر قسم کی مذہبی پالیسی انہیں کبھی بھی ملک میں تنہا اقتدار نہیں دلوا سکے گی اس لئے انہوں نے ایربکان کی کٹر قسم کی پالیسیوں سے بغاوت کرتے ہوئے ایک نئی جماعت تشکیل دی جسے جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اس کے منشور میں سیکولرازم کو بھی داخل کیا۔ وزیراعظم ایردوان ہمیشہ ہی سیکولرازم پر اس کی روح کے عین مطابق عمل کرنے کا پرچار کرتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورہ مصر کے دوران مصر کے عوام میں ہم آہنگی اور اتحاد قائم رکھنے کے لئے سیکولرازم پر عمل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔وہ عرب ممالک جو کہ بہار عرب کے بعد ڈکٹیٹر شپ سے آزاد ہوئے ہیں ترکی کو سیکولرازم کے معاملے میں اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ہمارے محترم کالم نگار نے اگر ترکی کی برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے منشور اور وزیراعظم ایردوان کے بیانات کا جائزہ لیا ہوتا تو وہ کبھی ان کی جماعت کو ایک مذہبی جماعت کہنے کے بجائے سیکولر جماعت کہنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے اور نہ ہی اتاترک کو ہدفِ تنقید بناتے۔
تازہ ترین