• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج بھی مکہ کے چٹیل پہاڑ دیکھیں اور یہ تصور کریں کہ شیرخوار بچے کے ساتھ اکیلی عورت کو اس وقت بے آب و گیاہ وادی میں رہنے کیلئے کہا جائے جب یہاں نہ آدم نہ آدم کی ذات ہوتو اِس پرکیا گزرے گی مگر وہ کوئی عام عورت نہ تھی وہ کئی صدیوں اور نسلوں کے سب سے جلیل القدر اِنسان کی شریکِ حیات تھی جس نے اپنے شوہر ِ نامدار سے صرف یہ سوال کیا کہ آپ مجھے معصوم بچے کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر جارہے ہیں کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ حضرت ابراہیم  نے جواب میں ہاں کہا تو پورے سکون اور اطمینان سے بولیں رضیت ُ باللہ(میں اللہ پر راضی ہوں) حضرت حاجرہ  کی اطاعت اور فرمانبرداری کی یہ ادا خالقِ کائنات کو اس قدر پسند آئی کہ اس کی پیروی ہر پیروکار پر فرض قرار دے دی ۔
مسجد الحرام کے مختلف مقامات پر بیٹھ کر کھڑے ہوکر اور چلتے ہوئے ہم کعبتہ اللہ کی زیارت کرتے رہے۔ پھر ایک روز جب چھت پر پہنچ کرنیچے نظر ڈالی تو ایک ناقابل فراموش روح پرور نظارہ دیکھنے کو ملا۔ایسے لگتاتھا انسان تیر رہے ہیں…لہریں ہیں جو آگے بڑھ رہی …پروانے اپنے مرکز کے گرد دیوانہ وار چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہ منظر اللہ کے دین کی شوکت اور عظمت کا پُرشکوہ مظہر ہے۔
نمازوں کے درمیانی وقفے میں برآمدوں میں بیٹھے ہوئے کئی ملکوں کے زائرین سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انڈونیشیا، ترکی، آسٹریلیا، فرانس، ایران، تاجکستان، روس، مصر ،شام اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ڈاکٹرز،پروفیسر،انجینئرز اور کئی نوجوانوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ انڈونیشیا کے انجینئر احمد اور ترکی کے ڈاکٹر عدنان کا کہناتھا کہ ان کے ملکوں میں نوجوانوں کا رُخ تیزی سے سُوئے حرم ہورہا ہے۔بنگلہ دیش کے ابوالقاسم کو بنگلہ دیش میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر ورُسوخ پر تشویش تھی۔مصر کے نوجوان انجینئر خالد کے جذبوں کو کوئی زبان نہیں دی جاسکتی۔26گھنٹے بس پر سفر کرکے مکہ پہنچا تھا، کعبہ کو بار باردیکھتا اور ہر بار اس کی آنکھیں تشکر کے آنسووٴں سے بھرآتیں۔بتانے لگا میں کوخوش قسمت ہوں کہ مجھے یہاں پہنچنا نصیب ہوا۔ میری بیوی کعبتہ اللہ اور روضہ رسول کی زیارت کیلئے گھر میں تڑپ رہی ہے۔اس کی یہاں آنے کی بہت خواہش تھی مگر اس بار میرے پاس نہ چھٹی تھی اور نہ اِتنے پیسے تھے ۔ اگلے سال اسے ضرور لے کر آوٴں گا۔
مکہ میں قیام کے آخری روز حرم ِکعبہ میں پولیس سروس کے ساتھی سکندر حیات سے ملاقات ہوگئی۔سکندر حیات پولیس کے ایک دیانتدار اور با اُصول افسر ہیں۔ حاجیوں کے معاملات کی درستگی کے لئے ابواحمد عاکف اور سکندر حیات جیسے ایماندار افسروں کی موجودگی بے حد اطمینان بخش ہے۔ حرمین میں لاکھوں فرزند انِ توحید کا اجتماع دیکھیں تو مسلمانوں کی قوت و شوکت بہت متاثر کرتی ہے۔دُنیا کے تناظر میں بین الاقوامی حالات پر نظر ڈالیں تو مسلمان ہر طرف بے وقعت اور بے وزن نظر آتے ہیں۔ یہاں نظر آنے والا عظیم الشان اجتماع مسلمانوں کی طاقت میں کیوں نہیں ڈھلتا۔اپنے مرکز سے اس قدر شدید عقیدت مسلمانوں کے اتحاد میں کیوں تبدیل نہیں ہوتی۔ہم اس پر تبادلہ خیال بھی کرتے رہے اورافسوس اور تشویش کا اظہار بھی۔اللہ کے گھر میں دعائیں کب ختم ہوتی ہیں لیکن وقت ختم ہوجاتا ہے اور ہمیں اُسی روز مدینہ منورہ پہنچنا تھا۔ نظریں کعبتہ اللہ پر تھیں اور ہاتھ بلند تھے۔ دل میں حسرتیں اور تمنائیں اسی طرح موجزن تھیں کہ ہم اُلٹے پاوٴں مسجد الحرام سے باہر نکل آئے۔
سکندر کھانے پر لے گئے۔ ان کی بیگم اور بیٹی بھی ساتھ تھیں جو طواف کیلئے آئی تھیں۔ پوری فیملی کے جذبوں کی شدت اور حدت قابل رشک تھی۔ پھر بھی میں نے پوچھ لیا کہ " دور دراز سے آنے والوں کا جوش و جذبہ تو قابل فہم ہے ۔آپ تین سالوں سے یہیں ہیں آپ کیلئے مسجد حرام میں آنا تو روٹین اور معمول کی بات ہوگی"سکندر اور بھابھی نے بیک زبان کہا ایسا ہرگز نہیں ہوا، ہم جب بھی آتے ہیں پہلے روز والی کیفیت ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ اِن جذبوں کو سلامت رکھے۔ کھانے کے بعد سکندر نے ہمیں بس پر بٹھایا اور ہم نبی کے شہر کی جانب چل پڑے۔
بلاشبہ کائنات کے خالق و مالک کے تمام وعدے سچے ہیں۔آخری نبی کو خوشخبری سنائی گئی ورفعنا لک ذکرک( اورہم نے تمہارا ذکر بلند کردیا) پھر اس ذکر کو اس طرح بلندی عطا ہوئی کہ ساری عظمتیں اور رفعتیں اسم محمد پر نچھاور کردیں۔دُنیا کے کونے کونے میں نامِ مصطفےٰ گونجنے لگا اور کروڑوں انسانوں نے عشقِ مصطفےٰ کو حرزِجاں بنا لیا۔نبی سے محبت اور عقیدت…انسانی تصور سے ماورا ہے ۔محبت اور عقیدت کی جتنی بھی قسمیں ہیں اور ان کی شدت کی جو بھی آخری سطح سوچی جاسکتی ہے۔اس ہستی سے جس کا نام خالق نے محمد رکھا… اس کے کروڑوں چاہنے والوں کی محبت اور عقیدت ان سب تصورات سے کہیں بلند ہے۔اُس سے کیا اُس کی نسبت سے جڑی ہوئی ہر شے سے اس کے پیرو کاروں کی عقیدت لازوال ہے۔تاریخ کے وہ نادرِ روزگار افراد لاتعداد ہیں جنہوں نے اُس کے شہر میں عقیدت کے باعث کبھی جوتا نہ پہنا اور ہمیشہ پاپیادہ پھرتے رہے۔آج بھی دُنیا بھر سے لاکھوں افراد سینوں میں محبت کی چنگاریاں سلگا ئے مدینے کی گلیوں کی زیارت کیلئے جاتے ہیں مگر وہاں وہ گلیاں نہیں بلند و بالا عمارتیں ملتی ہیں تو دِل پریشان سا ہوجاتا ہے۔ اسی پریشانی میں زائرین نبی کی مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ ریاض الجنہ میں بیٹھ جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرورِ کائنات نے اپنے دامن ِ رحمت میں لے لیا ہے۔ روضہٴ اقدس کے سامنے پہنچ جائیں تو لگتا ہے ۔رحمتہ اللعالمین کی آغوش میں آگئے ہیں۔ بزرگ ٹھیک کہتے ہیں کہ مسجد حرام میں کعبتہ اللہ کی عظمت و جلال کا احساس رہتا ہے ۔ زائر کی کیفیت ایک بھیک مانگنے والے گدا گر کی طرح ہوتی ہے مسجد نبوی اور روضہٴ رسول پر پہنچ کر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے۔وہ جو عرب کا سب سے بڑا فلسفی جو اپنی معصوم بچی کو پیارکرتے ہوئے بار بار کہتا تھا" محمد آپ نہ ہوتے تو میں اپنی اس پیاری بیٹی کو قتل کردیتا یا زندہ قبرمیں اتار دیتا۔ ہماری نسلیں آخری سانس تک آپ کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتیں۔ آپ ہمیں حیوانیت اور درندگی کے اندھیروں سے انسانیت کے اجالوں میں لے آئے"۔ اس کی بات سو فیصد درست ہے۔ انسانیت کے عظیم ترین محسن اور نبی آخرالزمان کے شہر میں پہنچ کر اور نبی کی مسجد کو دیکھ کر تاریخ صدیوں کا سفر طے کرکے نظروں کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔معرکہٴ بدر یادآجاتاہے…معرکہٴ احد اور خندق میں جان نثاروں کی قربانیاں یاد آجاتی ہیں۔ مسجد نبوی کے صحن میں حضور کے اردگرد ابوبکر، عمر، عثمان اورعلی بیٹھ کر باتیں سن رہے ہیں۔ نماز کے دوران حسن اور حسین آقائے دوجہاں کے کندھوں پر بیٹھے ہیں۔درسگاہ ِ نبوت نے ایسے عظیم المرتبت افراد پیدا کئے جو رہتی دُنیاتک انسانوں کیلئے رول ماڈل ہیں۔نبی کی مسجدایک عبادت گاہ نہیں انسانیت کی عظیم ترین درسگاہ ہے۔ہدایت کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ دُنیا میں انسانی فلاح کیلئے آنے والے سب سے عظیم انقلاب کاماخذو مرکز ہے۔ اسمِ محمد نے بلا شبہ دُنیا کا کونہ کونہ روشن کردیا۔
عالمِ آب وخاک میں تیرے ظہور سے
فروغ ذرہّ ریگ کو دیا تونے طلوعِ آفتاب
آقائے دو جہاں کی رہائش (حجرہ) اور مرقد کے پاس پہنچ کر اپنے گناہوں کا شدید احساس ندامت اور شرمندگی میں مبتلا کردیتا ہے… اسی احساس کی شدت کے باعث اِس مقام پر پہنچ کر بڑے بڑے ولی اور قطب اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ اقبال جیسا سچا عاشق تو مرقدِ رسول کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کرسکا اور اس نے مالک و خالق سے درخواست کی:۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
(اے رب ِکریم تور حمان ورحیم ہے مجھ گناہ گارکو حساب کے بغیر ہی بخش دے۔لیکن اگر حساب لینا ہی ہے تو کہیں علیحدہ لے لینا مجھے حضور کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے…نگاہِ مصطفےٰ میں رسوانہ کرنا)مدینہ پہنچ کر گلے کی سوزش کے باعث میں شدید بخار میں مبتلا ہوگیا۔اپنے پیارے نبی کے شہر میں اللہ نے رحمت کے فرشتوں کا انتظام بھی کررکھا ہے ایسا ہی ایک رحمت کا فرشتہ آیا اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ٹیکوں سے طبیعت سَنبھل گئی اور سلیم منصور اور میں روضہٴ اقدس پر حاضر ہوگئے۔ کیا کہوں ، کیا دعا مانگوں ۔۔۔ کونسا سلام پیش کروں ۔ کونسا درود پڑھوں منہ سے کہیں کوئی لفظ غلط نہ نکل جائے ۔ کہیں کوئی بات نا مناسب نہ ہوجائے۔اسی پریشانی میں تھا کہ آواز آئی کہ وہی درود اور وہی سلام پیش کرو جو آقا نے خود پسندفرمایا اور نماز کا حصہ بنادیا اور پھر زبان سے یہی الفاظ نکلتے رہے ۔۔کب تک ؟ یہ علم نہیں مسجد نبوی سے ہم کب نکلے ؟ یہ بھی علم نہیں۔اللھم صلی علی محمد و علی آل مُحمد کمٓا صَلیّتَ عَلَی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد و علی آل مُحمد کمٓا بارکتَ عَلَی ابراہیم وعلی آلِ ابراہیم انک حمید مجید
تازہ ترین