• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والدِ گرامی، حاجی محمّدہاشم بابا، دین و دنیا کے ایک سچّے سپاہی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ایمان داری، سچائی، اصولوں کی پاس داری میں گزاری اور یہی تعلیم اپنی اولاد کو بھی دی۔وہ1921ء میں ضلع ٹھٹّھہ میں پیدا ہوئے۔ غربت کے باعث زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ کھیتی باڑی کرتے رہے۔1947ء میں پاکستان معرض ِوجود میں آیا، تو محکمہ پولیس میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے۔ 

پھرکراچی پوسٹنگ ہوئی، تو شہر کے مختلف تھانوں میں خدمات انجام دینے کے بعد 1981ء میں گلشن ِاقبال تھانے سے بحیثیت اسسٹنٹ سب انسپکٹر ریٹائر ہوئے۔ کراچی پولیس سے وابستہ سب ہی لوگ انہیں ’’بابا ہاشم‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ دُنیا سے زیادہ دین کی طرف راغب تھے۔ ایمان داری، سچائی اور فرض شناسی کی وجہ سے محکمۂ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی اُن کی بےحد عزت کرتے۔ 34سال پولیس کی نوکری کے دوران کبھی کسی سے ایک کپ چائے تک نہ پی۔ اُس زمانے کے کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل لکھ پتی ہوگئے، مگر انہوں نے اپنے رہنے کے لیے ایک گھر تک نہیں بنایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے۔

1958ء کا واقعہ ہے، وہ جیکسن تھانے میں تعینات تھے، ایک روز پولیس کواطلاع ملی کہ مشہور اسمگلر قاسم بھٹی اپنی لانچ میں کروڑوں روپے کا سونا اور دیگر قیمتی سامان اسمگل کررہا ہے۔ محکمے نے فوری طور پر وہاں چار رکنی چھاپہ مار ٹیم تشکیل دے کے بھیجی، جس میں باباکی سربراہی میں تین سپاہی شامل تھے۔ چھاپہ مار ٹیم نے کام یاب کارروائی کے دوران لانچ سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا اور قیمتی سامان برآمد کرکے اسمگلرز کو حراست میں لے لیا، جب اسمگلر بُری طرح بے بس ہوگئے، تو انہوں نے ہاشم بابا کو پیش کش کی کہ اگر آپ لانچ میں موجود سونا اور ایک آدمی چھوڑ کر باقی سامان اوردیگر آدمی گرفتار کرلیں، تو اس کے عوض ہم آپ چاروں کو فی کس ایک ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 1958ء میں ایک لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہوگی۔مگر بابا نے صاف انکار کردیا اور لانچ سمیت تمام اسمگلرز کو گرفتار کرلیا۔جس کے صلے میں اُس وقت کی مارشل لا حکومت کی جانب سے انہیں ’’قائد اعظم پولیس گولڈ میڈل‘‘ سے نوازا گیا۔

1961ء میں بابا جب کراچی آئے، تو اُن کی پوسٹنگ نیو ٹاؤن تھانے کی آؤٹ پوسٹ اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیزز میں ہوئی۔ اُس وقت بابا کی تن خواہ برائے نام تھی۔گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتی تھی، توبابا ڈیوٹی کے بعد جیل روڈ چورنگی پر ایرانیوں کی ایک مشہور بیکری سےبسکٹ لا کر سائیکل پہ شہر کے مختلف ہوٹلز میں سپلائی کرنے لگے ۔ 100روپے پر10روپے کمیشن ملتا تھا اور اسی کمیشن سے میری تعلیم اور گھر کے دیگراخراجات پورے ہوتے۔ صفورا گوٹھ پر وڈیرا صدر بخش گبول، بابا کا جگری دوست تھا۔ 

اس نے کراچی کے اُس علاقے کی زمین، جو آج کروڑوں روپے میں بھی نہیں ملتی، بابا کو متعدّد بار دینے کی پیش کش کی کہ’’ بابا ہاشم! تم چار پانچ ایکڑ زمین لے لو اور اپنے نام کرواکے گھر بنوالو۔‘‘ مگر بابا ہمیشہ ٹال دیتے اور جواب دیتے ’’اﷲ بخش! بندے کو دو گز زمین کی ضرورت ہوتی ہے، وہ جہاں قسمت ہوگی، مل جائے گی، مَیں یہ جھنجھٹ نہیں پال سکتا۔‘‘ سموں گوٹھ کا جان محمد خاصخیلی بھی بابا کا بہت اچھا دوست تھا۔ شہر میں اس کے ٹرک چلتے تھے، اس نے بھی دسیوں مرتبہ کہا کہ جتنی زمین چاہو تمھارے نام کروادیتا ہوں۔ اس کی زمین عزیز بھٹی پارک کے ساتھ تھی۔ مگر بابا نے اُسے بھی یہی جواب دیا۔ اور پھر مرنے کے بعد بابا کو جو زمین نصیب ہوئی، وہ واقعی بہت خوش قسمت انسانوں کو نصیب ہوتی ہے۔ انہیں ٹھٹھہ میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوئی کے مزار کی دیوار سے چند قدم کے فاصلے کی زمین ملی، جہاں وہ آسودئہ خاک ہیں۔

1974ء میں بابا کی پوسٹنگ نیو ٹائون تھانے میں ہوئی۔ اُس وقت ایس پی، سینٹرل آفس نیا نیا بنا تھا۔ اتفاق سے اُن ہی دنوں ایس پی سردار عبدالعزیز خان دستی بھی تبادلے کے بعد نیو ٹائون میں تعینات ہوئے تھے۔ کراچی کے پرانے پولیس والے ایس پی سردار عبدالعزیز دستی سے خوب واقف ہوں گے۔ وہ اپنی سختی اور دہشت کی وجہ سے ’’ٹکّا خان‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ پولیس اہل کار اور افسران اُن کا نام سُن کر کانپتے تھے۔ بابا بھی ایس پی آفس میں تعینات تھے۔ اُن کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ اذان ہوتے ہی سیدھے مسجد کا رُخ کرتے۔ جب ایس پی یہاں تعینات ہوکر پہلے روز آفس آیا، تو اس نے تمام اسٹاف کو پیشی کے لیے اپنے کمرے میں بلایا اور حاضری رجسٹر سے باری باری سب کا نام لے کر اپنے پاس بلاتا اور جائزہ لیتا رہا۔ 

جب بابا کا نام پُکارا، تو آفس انچارج نےڈرتے ڈرتے بتایا کہ ’’بابا ہاشم نماز پڑھنے گئے ہیں۔‘‘ اس نے یہ سُنتے ہی قہر آلود نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا ’’اچھا، مجھے بتائے بغیر چلے گئے؟‘‘ انسپکٹر نے جواب دیا ’’سر! یہ اُن کا معمول ہے، اذان کے بعد وہ کوئی کام نہیں کرتے۔‘‘ ایس پی نے اسی طرح درشت لہجے میں کہا ’’جائو، ابھی آدمی بھیجو اور اسے بلاکر لائو اور کہو کہ ایس پی صاحب بلارہے ہیں۔‘‘ آفس انچارج نے اُسی وقت ایک آدمی کو مسجد کی طرف دوڑادیا، جس نے بابا کو مسجد جاکر سارا ماجرا سُنایا۔ بابا نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’’اچھا، ایسا کرو آج تم بھی نماز پڑھ لو، پھر دونوں ساتھ ہی چلتے ہیں، اﷲ مالک ہے۔‘‘ خیر، نماز پڑھ کر وہ آفس پہنچے، تو حیرت انگیز طور پر سردار صاحب اُنھیں دیکھتے ہی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بابا نے سیلوٹ کیا، تو چند ثانیے تک اُن کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے، پھر کہا ’’اچھا، تم ہو محمد ہاشم.....؟‘‘ بابا نے جواب دیا ’’جی سر! مَیں ہوں ہیڈ کانسٹیبل محمد ہاشم۔‘‘ سردار صاحب نے پوچھا ’’مجھے جانتے ہو؟‘‘ بابا نے کہا ’’جی سر! آپ ہمارے نئے ایس پی سردار عبدالعزیز دستی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’پھر بھی تم بغیر بتائے آفس چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ بابا نے جواب دیا ’’سر! میں اُس حکم پر گیا تھا، جو ہر مسلمان کے لیے دن میں پانچ مرتبہ جاری ہوتا ہے اور صرف آج ہی نہیں، روزانہ جاتا ہوں اور ہمیشہ جاتا رہوں گا۔‘‘ بابا نے ہمیں بتایا کہ میری بات سُن کر سردار عبدالعزیز کے چہرے کا رنگ سُرخ ہوگیا۔ وہ کئی منٹ خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے۔ پھر اچانک میری طرف بڑھے، قریب آکر اپنا ہاتھ میرے داہنے کندھے پر رکھا اور ڈیوٹی انچارج سے مخاطب ہوکر کہا ’’جب تک مَیں یہاں ایس پی ہوں، محمد ہاشم میری ڈیوٹی میں ہوگا، یہ جب آئے، جب جائے اس سے کوئی بازپُرس نہیں کرے گا۔‘‘ پھر مجھ سے کہا ’’محمد ہاشم! میرے حق میں دُعا کرتے رہنا۔‘‘

بابا نعتیں بہت شوق سے سُنتے تھے اور نعت خوانی بھی کرتے تھے، مگر بیچ میں ہچکیاں لے کر رو پڑتے تھے۔ درود و سلام بھی شوق سے سُنتے۔ انہوں نے ایک حج اور ایک عمرہ ادا کیا۔ حج کر کے کیا آئے، ہر وقت خاموشی میں غرق اپنی دُھن میں مگن رہنے لگے۔ زیادہ تر وقت مسجد میں گزرتا۔ باوجود عُمر رسیدہ ہونے کے تمام نفلی روزے رکھتے۔ 2002ء میں وضو کرتے ہوئے غسل خانے میں پھسل کر گر پڑے، کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ عُمر82سال ہو گئی تھی، بڑے بڑے آرتھو پیڈک ڈاکٹرز کو دکھایا۔ 8مہینے ٹانگ پر پلاستر بھی چڑھارہا، مگر عُمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ہڈی جڑ نہ سکی۔ اُس وقت سب سے زیادہ دُکھ انہیں مسجد میں نہ جانے کا تھا۔ جمعے کے دن تو اکثر رو پڑتے۔ بالآخر 19جنوری بروز ہفتہ2003ء میں انتقال کرگئے۔آج بھی جب بابا مجھے یاد آتے ہیں، تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ (ابراہیم عباسی)

تازہ ترین