• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد سلیم احمد سلیمی

دُعا کے لغوی معنی’’ کسی کام کو انجام دینے کی درخواست کرنا‘‘ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃالنمل میں فرماتے ہیں،’’کون ہے جو بے قرارکی دُعا سُنتا ہے، جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟‘‘ سورۃ الاعراف میں فرمایا،’’اپنے ربّ سے گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے دُعا مانگو،بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘اور سورۂ غافر میں ارشاد فرمایا،’’اور تمہارا پروردگارکہتا ہے، مجھے پکارو، مَیں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا، جو لوگ تکّبر کی وجہ سے میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، یقیناً وہ ذلیل ہو کر عن قریب جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،’’تقدیرِ الہٰی کو سوائے دُعا کے، کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور سوائے نیکی کے کوئی چیز عُمر میں اضافہ نہیں کرسکتی۔‘‘ (مستدرک حاکم)۔

بلاشبہ دُعا ایک عظیم نعمت ہے ،جس کے ذریعے انسان اپنے رب سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے۔ موجودہ دَور میں تقریباً ہر فرد ہی چاہے وہ خواندہ ہو، ناخواندہ،اس کا شمار امراءمیں کیا جاتا ہو یا متوسط طبقے میں، کسی نہ کسی مسئلے یا پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے گِڑگِڑا کر دُعائیں مانگنی چھوڑ دی ہیں۔ ہم بس چند رَٹے رٹائے الفاظ دہرا کر دُعا مانگتے ہیں، حالاں کہ دُعا ایک ایسا عمل ہے، جو تقدیر بھی بدل سکتا ہے۔بشرطیکہ دُعا مانگنے کے تمام تر آداب ملحوظِ خاطر رکھے جائیں۔

ربّ کی بارگاہ میں دُعا مانگنے کے چند آداب ہیں۔ اگر اُن کا پورا خیال رکھا جائے اور ساتھ اسباب بھی اختیار کیے جائیں، تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ربِ کریم اپنے بندے کو مایوس کردے یا خالی ہاتھ لوٹا دے۔ لہٰذا دُعا پورے یقین و اعتماد کے ساتھ خشوع و خضوع سے مانگی جائے، جس قدر گِڑگِڑا کر، رو رو کر مانگ سکتے ہیں، مانگیں۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ کی حاجت بڑی ہے یا کسی مشکل کا آسان ہونا ممکن نہیں۔ اللہ ہر چیز سے بے نیاز، حاجت روا اور مشکل کُشا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 

اس کے نزدیک کوئی حاجت بڑی ہے، نہ چھوٹی اور نہ ہی اس کے لیےکسی مشکل کو حل کرنا ناممکن ہے۔ عاجزی سے دُعا مانگنا بھی آداب میں شامل ہے کہ بعض افراد ایسا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں، گویا اللہ کی بارگاہ میں درخواست نہیں کررہے،قبول کرنے کی ضد کررہے ہوں۔ دُعا مانگتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کی دُعا جائز ہو، ناجائز نہیں۔ مذہبی، سماجی، اخلاقی یا قانونی طور پر جُرم کے دائرے میں آنے والی دُعائوں سے پرہیز کریں۔ نہ کسی کی پستی چاہیں، نہ بُرائی کریں اور نہ ہی کسی کو بددُعا دیں۔ اللہ تعالیٰ اگر رحیم و کریم ہیں، تو قہار اور جبّار بھی ہیں۔ 

ایسا نہ ہوکہ آپ کی کوئی دُعا اس کی قہاری و جباری کی دلیل بن جائے۔یوں تو ربّ کے حضور کسی بھی وقت دُعا یا فریاد کی جاسکتی ہے کہ اُس کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں،تاہم تہجّد یا پھر اذانِ فجر سے نمازِ فجر کے درمیانی وقفے کو دُعائوں کی قبولیت کا وقت قرار دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ کوئی بھی دُعا رَد نہیں کرتے، البتہ قبولیت کی تین مختلف صُورتیں ہوسکتی ہیں۔

جیسے کوئی دُعا فوراً قبول کرلی جاتی ہے، تو کوئی دُعا کچھ وقت بعد( جو ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے) قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ ہماری مانگی گئی دُعا سے کہیں بہتر صُورت میں اس کی تکمیل فرماتے ہیں، لہٰذا اُس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں اور ہرلمحہ، ہر پَل اُسی سے مانگتے رہیں کہ وہ بہت نوازنے والا، مہربان ہے۔

تازہ ترین