• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نازلی فیصل، لاہور

’’ممّا!کورونا وائرس کا عالمی دورہ(ورلڈ ٹور)کب ختم ہوگا؟ کیا ہم کبھی اسکول نہیں جاسکیں گے؟‘‘ کمپیوٹر پر نظریں جمائے جب میرا نواسہ اپنی ماں سے سوال کرتا، تو وہ جواب دینے کی بجائے کہتی، ’’بیٹا! فی الحال تو آن لائن پڑھائی کرو، ابھی مَیں کچھ نہیں کہہ سکتی‘‘، اور پھر… جب ماں نے اُسے اسکول کُھلنے کی نوید سُنائی، توآن لائن کلاسز لیتے تھکی ہوئی آنکھوں میں خوشی کی لہر نے ایسا اُجالا کیا کہ وہ چھلانگ مار کے اُٹھا اور دوڑ کر ماں کے گلے لگ گیا۔ ’’ممّا! کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں۔ 

مَیں ابھی اپنے دوستوں کو بتاتا ہوں۔‘‘ اس کی آواز میں جو خوشی کا جلترنگ تھا، وہ سب سازوں سے بڑھ کرتھا۔البتہ مَیں سوچ میں تھی کہ ہمیشہ اُس کا یہ سوال میرے دِل میں طوفان برپا کردیتا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلی دہشت کی لکیریں، اندرونی خوف کی ترجمان تھیں، جو میرا دامن آنسوؤں سے بھگو دیتی تھیں۔ کِھلتے ہوئے غنچوں کا کوروناوائرس کے خوف سے کانپنا، ان کی آئندہ بنیادوں کو ہلانے کے مترادف تھا۔

اس وائرس کے ہول ناکیوں سے لرزاں یہ معصوم ذہن جنہوں نے ابھی دُنیا صحیح سے دیکھی بھی نہیں تھی، اُن کا خوف سے آنکھیں بند کرنا، ان کے اسکولز کو بند کرکے انہیں گھروں میں مقّید کرنا، ان کے کھیل کود اور اگلی منزلوں کی طرف بڑھتے قدموں کو ڈانواں ڈول کرنا مستقبل کی بنیادوں کو ہلا رہے تھے۔ وہ ہمّت، لگن، حصولِ علم کا شوق، ستاروں کو چُھونے کی باتیں، اپنے دوستوں سے مقابلے کا رحجان، جو ان کی کام یابی کا سب سے بڑا زینہ تھا، یک دَم ہی جیسے کھینچ لیا گیا۔

اسکولز پر پڑے تالے جیسےنوحہ خواں تھے اور صدائے درد بن کر فضا میں بکھر رہے تھے۔خالی کلاس رومز دہائیاں دےرہے تھے، کرسیوں پر پڑی گرد،سُونے پَن کا احساس دلارہی تھی، لائبریریوں کی کتابیں، وہ ہاتھ تلاش کررہی تھیں، جو ان میں گوہرِ نایاب تلاش کرکے زندگی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔

وہ بسوں، گاڑیوں کی قطاریں، وہ ماؤں کا صُبح سویرے اُٹھنا اور وقت دیکھ کر جلدی جلدی بچّوں کو اُٹھانا، ناشتا کروا کر تیار کرنا، سب گویا عالمی وبا کے ستم کی نذر ہوگئے ۔ کالجز، یونیورسٹیز کے سنّاٹے، علم کی بنیادوں کو ہلتا دیکھ کر خوف زدہ تھے کہ کہیں یہ سنّاٹے ان عمارتوں میں دراڑیں ہی نہ ڈال دیں۔ آن لائن پڑھائی، کبھی تدریسی اداروں کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وہ تو بس اِک کوشش ناتمام تھی، ان پھولوں کو جگانے کی، جو اسکول کھلنے کی آس میں مرجھا رہے تھے۔صد شُکر کہ اب زندگی نے نئی کروٹ لے کر گلشنِ اُمید کے پھول پھر سے کِھلا دئیے ہیں۔

تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے میں شہہ رگ کی سی حیثیت رکھتے ہیں، تازہ ہوا کا وہ جھونکا ہوتے ہیں، جو نوخیز کلیوں، پھولوں کی اخلاقی ذہنی، جسمانی و تخلیقی صلاحیتوں کی آب یاری کرکے قوم کے بہتر مستقبل کے ضامن بنتے ہیں۔ گوکہ بچّے موسمِ سرما و گرما کی تعطیلات کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں، لیکن اس ’’موسمِ کورونا‘‘ کی چُھٹیاں توان کے لیے کسی اذیت سے کم نہ تھیں کہ نئی کلاس کا پہلا دِن آنے میں، چند ہفتے نہیں، بلکہ چھے سے سات ماہ لگ گئے۔

پھر بھی ہم مالکِ حقیقی کا جتنا بھی شُکر ادا کریں کم ہے کہ باقی دُنیا کے مقابلے میں ہم پھر بھی کم متاثر ہوئے۔ گرچہ تعلیمی ادارے کافی حد تک بحال کردئیے گئے ہیں، لیکن بندشوں کی زنجیر ابھی پوری طرح نہیں ٹوٹی ہے کہ کورونا وائرس کے سبب احتیاط اب بھی لازم ہے۔ 

خاص طور پر ماؤں کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ انہیں بچّوں کی تعلیم پر کہیں زیادہ توجّہ دینے کے ساتھ اُن کی صحت و سلامتی کو بھی یقینی بنانا ہے۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کروانا، ان کی اہم ذمّے داری ہے کہ بچّے تو پھر بچّے ہیں، انہیں ہر لمحے ’’احتیاط‘‘ کا اصول والدین ہی کو ذہن نشین کروانا ہوگا۔ بہرحال، بچّو! آپ کو اسکول آنا مبارک ہو۔ ان شااللہ اب وہ دِن بھی دُور نہیں، جب اللہ کے فضل وکرم سے کورونا وائرس کی پرچھائیں تک غائب ہوجائے گی اور ہم سب خوشی سے پکار اٹھیں گےکہ’’ہماری دُنیا پہلے جیسی ہوگئی‘‘۔

تازہ ترین