• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفیاء کے دربار اِس لئے درِ فیض کہلاتے ہیں کہ یہ تمام خلقت کے لئے تمام وقت کھلے ہوتے ہیں۔ وہاں داخلے کے لئے کسی بھی فرد کی ظاہری حیثیت، مذہب، فرقہ اور اثر و رسوخ نہیں دیکھا جاتا۔ یہ آسرے کی وہ چھتری ہے جو موسم کی ہر سختی میں ڈھال بنتی ہے۔ اِن درباروں کی دیواریں وہ مہربان کندھے ہیں جن کے ساتھ ٹیک لگا کر سمجھوتوں کے تمام آنسو بہائے جا سکتے ہیں۔ صوفیوں نے زندگی میں ہر پسماندہ اور دُکھی فرد کو گلے سے لگایا۔ میلے، کچیلے اور زمانے کی گرد سے اٹے مایوس اور نظر انداز طبقے کے افراد کو اپنے دستر خوان پر بٹھایا، اپنے ساتھ کھانا کھلایا، اُن کے زخموں پر ہمدردی کا پھاہا رکھا، اُن کی ڈھارس بندھائی، اُن کی کہانی سنی، اُن سے مکالمہ کیا، اُنہیں برابری کی سطح پر تکریم دی، شرف کی دری پر اپنے ساتھ جگہ دی اور اُن کی زبان میں اُن سے بات کرکے اُنہیں اور اُن کی قدروں کو معتبر درجہ بخشا۔ اُن کے بعد اُن کے دربار اِس رسم کو نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ صدیوں سے اِس دھرتی کے لوگ موسیقی، لوک ادب، آرٹ اور فنونِ لطیفہ کے رسیا تھے۔ صوفی نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ڈھول کی آواز پر اِن لوگوں کی سماعت دھڑکنے لگتی ہے اور وجود دھمال بن جاتا ہے تو اُنہوں نے فن و ثقافت کو انسانی قدروں کی ترویج کا وسیلہ بنایا۔ معتبر ذرائع کے مطابق خواجہ معین الدین چشتیؒ نے خود کو اِس زمین کے رنگوں اور رسم و رواج کے ساتھ اِس طرح ہم آہنگ کیا کہ نہ صرف یہاں کا لباس پہنا بلکہ یہاں کے لوگوں کی موسیقی سے جڑت دیکھتے ہوئے محفلِ سماع کو پیغام کا وسیلہ بنایا۔ ہمارے صوفیاء بہت بڑے نفسیات دان تھے۔ وہ اوپر سے حکم لاگو کرنے کی بجائے اندر ترغیب کا دَر وا کرتے اور انسان کا زمین سے رشتہ جوڑنے کی سعی کرتے تھے۔ زمین کا رشتہ زمینی دانش سے بندھا ہے۔ انسانی حیات کے ایسے تجربوں سے جڑا ہوا ہے جو سینہ بہ سینہ، نسل در نسل آگے منتقل ہوتا ہے۔ صوفی غیر فطری طریقۂ تبلیغ نہیں اپناتا بلکہ افراد میں موجود رجحانات اور رویوں کو بنیاد بنا کر حکمت عملی وضع کرتا ہے۔ پہلے درجے پر وہ خلقت کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور تقسیم کو رد کرتا ہے پھر قدرت کی رنگا رنگی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے پیغام کو عملی طور پر لوگوں تک پہنچاتا ہے۔

حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کا دربار درِ فیض کا عمدہ نمونہ ہے۔ روحانی طمانیت سے قبل ضروریاتِ زندگی کی طلب عام لوگوں کو صوفی کے دربار سے منسلک کرتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ روحانی فیوض و برکات بھی صوفیاء کے دربار کی کشش ہیں مگر رزق اور پناہ بہت سے لوگوں کی بنیادی طلب ہے۔ داتا دربار جانے والے لوگوں کی اکثریت سے سوال کیا جائے تو علم ہو گا کہ لنگر پانی اور تحفظ کا احساس انہیں وہاں کھینچ لاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہاں کا ماحول صوفی کی طرح غیرمحسوس طریقے سے دلوں تک رسائی حاصل کرتا ہے، یوں معرفت اور نور کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ شاید یہ دربار دنیا کا واحد دربار ہے جہاں چوبیس گھنٹے لنگر خانہ چلتا ہے اور بڑے پیمانے پر جاری و ساری رہتا ہے جو کہیں اور نظر نہیں آتا۔ داتا صاحب کو گزرے دس صدیاں گزر چکی ہیں مگر دربار کی رونق تروتازہ ہے۔ اب حضرت علی ہجویریؒ کے پیغام کی روح کے ساتھ ساتھ دیگر صوفیاء کا کلام بھی معرفت اور رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح تعلیمی درسگاہ میں مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس طرح داتا دربار کے وسیع احاطے میں وارث شاہؒ، میاں محمد بخشؒ، سلطان باہوؒ، بابا فریدؒ، خواجہ فریدؒ، شاہ حسینؒ اور دیگر صوفیاء کا کلام سماع کی محافل میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ تمام مشہور قوال اور نعت خواں اس دربار میں اپنے فن کے ذریعے حاضری دیتے ہیں۔ حالیہ عرس کا اختتام بھی انہیں محفلوں سے ہوا۔ یعنی آج بھی محفلِ سماع روحانی لطافت کا بڑا وسیلہ ہے۔ لوگ لیکچر اور گفتگو کی بجائے موسیقی کے ذریعے کلام سننے میں رغبت محسوس کرتے ہیں۔ خدا کرے یہ درِ فیض لوگوں کو آپس میں جوڑنے اور انہیں آفاقیت اور بہتر زندگی کی طرف لانے کا عمل جاری رکھے۔ فیضانِ صوفیاء جاری رہے۔ لوگوں کی مادی مشکلات بھی حل ہوں اور انہیں روحانی آسودگی بھی نصیب ہو۔ صرف اسی صورت زندگی کی متوازن شکل اُبھرتی اور اُجاگر ہوتی ہے۔ یہ دربار اخلاقی و انسانی قدروں کے پرچارک ہیں۔ یہاں زاہد اور خطا کار سب آتے ہیں کیونکہ اچھے برے ہونے سے قبل وہ انسان ہونے کے باعث صوفی کے لئے باعثِ تکریم ہیں۔ صوفی برائی سے نفرت کرتا ہے برے انسان سے نہیں۔ وہ عمل کی میٹھی گولی سے برائی کے اثرات ختم کر کے دل کے شیشے کو جگمگا دیتا ہے۔

تازہ ترین