• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنگین جرائم کی صورت حال پر مستند اعداد و شمار پر مبنی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں پچھلے ایک سال کے اندرقتل ، اقدام قتل، اغواء برائے تاوان اور دیگر بڑے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2015ء میںسزائے موت پر آٹھ سال سے عائد پابندی کے ختم ہوتے ہی گزشتہ دس سال کی نسبت سنگین جرائم کے ارتکاب میں کمی کا رجحان سامنے آیا۔سولہ دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد وں کے حملے کے بعد حکومت نے سزائے موت پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور 2015ء میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں قتل کے واقعات میں 28.5 فی صد کمی دیکھی گئی جبکہ 2015ء میں چاروں صوبوں نیز آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں تمام سنگین جرائم کی شرح پچھلے دس برسوں میں ہرسال ہونے والے سنگین جرائم کی شرح سے کم رہی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2014ء کے 13270کے مقابلے میں 2015ء میں قتل کے 9486 مقدمات درج ہوئے ۔ اقدام قتل کے واقعات میں 21.8 فی صد ، اجتماعی زیادتی کی وارداتوں میں 17.3 فی صد اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں43.6 فی صد کمی سامنے آئی۔مجموعی طور پر انفرادی جرائم کی شرح میں 14.3 فی صد اور جائیداد سے متعلق جرائم میں 13.3 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔ ڈکیتی، لوٹ مار، نقب زنی، مویشیوں کی چوری اور گاڑیاں چھینے جانے کی وارداتوں میں بھی واضح کمی واقع ہوئی ہے ۔ پورے ملک میں ہر قسم کے جرائم کی وارداتوں میں کمی کا یہ رجحان بلاشبہ اس امر کی علامت ہے کہ ہر سطح کی انتظامیہ اور عدالتوں کی کارکردگی ماضی کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔ سزائے موت پر پابندی کے خاتمے کے علاوہ اس مثبت تبدیلی کا ایک بنیادی سبب پورے ملک میں دہشت گردی ، کرپشن اور دیگر سنگین جرائم کے خلاف جاری کارروائیاں بھی ہیں۔ تاہم یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ محض سزاؤں کے نفاذ سے کسی بھی معاشرے کی پائیدار اصلاح نہیں ہوسکتی۔اس کیلئے معاشرے سے ظلم، استحصال اور بے انصافی جیسی برائیوں کا خاتمہ ضروری ہے جو معاشرے کو محروم اور مراعات یافتہ طبقوں میں تقسیم کرتی ہیں۔مراعات یافتہ طبقات، اعلیٰ حکومتی اور سیاسی شخصیات، سول و ملٹری بیورو کریسی اور دیگر مقتدر طبقوں کا سر سے پاؤں تک ہرقسم کی کرپشن میں ملوث ہونابلاشبہ معاشرے کی مجموعی اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔قانون کا نفاذ جب تک سب پر یکساں نہ ہو اور عدالت کے کٹہرے میں بڑے اور چھوٹے، طاقتور اور کمزور ، حکمراں اور عوام سب برابر نہ ہوں، اس وقت تک معاشرے کی پائیدار اصلاح ممکن نہیں۔ اجتماعی زیادتی وغیرہ کے واقعات کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ سفلی جذبات کو ابھارنے والے اسباب ختم کئے جائیں ، اس مقصد کیلئے میڈیا کی اصلاح ناگزیر ہے، جرائم کے اسباب کو ختم کئے بغیر محض سزاؤں کے نفاذ سے معاشرے کی اصلاح کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے کسی بستی میں گٹروں سے ابلتی ہوئی غلاظت کو بند کئے بغیر محض جھاڑو سے راستوں کو صاف کرنے کی کوشش ۔اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج ، آخرت کی جوابدہی کے احساس اور قومی و اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کی قربانی دینے کے جذبے کی بیداری کے بغیر معاشرے سے حرص اور لالچ کے محرکات کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو لوگوں کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر اکسانے کا سبب بنتے ہیں۔اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ حکمراں شخصیات اور مقتدر طبقات ملک و قوم کی خاطر ایثار و قربانی کی مثال بنیں کیونکہ معاشرے کا عمومی چلن وہی ہوتا ہے جو اس کے حکمراں طبقوں کا ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی ذرائع ابلاغ اور تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم سے بہتر معاشرے کی تعمیر کا کام لیا جاناچاہیے۔ درس گاہوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا کام بھی انجام دینا چاہیے جیسا کہ مسلم معاشرے کی مستقل روایت رہی ہے نیز ذرائع ابلاغ کو محض خبروں اور تفریح مہیا کرنے کا وسیلہ بنے رہنے کے بجائے معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کی مہم شروع کرنی چاہئے ۔
تازہ ترین