• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کی جانب سے بھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائر پر شائع ہونے والے انٹرویو میں کیا گیا یہ انکشاف کہ بھارت نے پاکستان کو باہمی اختلافات کے حل کیلئے مذاکرات کی پیش کش کی ہے، علاقائی اور عالمی صورتحال میں اہم تبدیلیوں کا غماز ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے بھارت کی اِس مبینہ پیش کش پر بھارت کی دوغلی پالیسیوں کی طویل تاریخ پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کشمیر اور دہشت گردی سمیت تمام دو طرفہ معاملات پر بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اپنی گفتگو میں اُنہوں نے بجا طور پر مذاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کو لازمی قرار دینے کے علاوہ تقریباً سوا سال سے جاری کشمیر کے فوجی محاصرے کے خاتمے، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ڈومیسائل کے نئے قانون کے واپس لئے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ مشیر قومی سلامتی نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارتی صحافی سے گفتگو میں دبنگ لہجے اور دو ٹوک لفظوں میں دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے اور چینی قونصل خانے، آرمی پبلک اسکول اور کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملوں میں بھارت کا ہاتھ ہونے اور اس کی جانب سے دہشت گروں کی مالی معاونت کرنے کے یقینی ثبوت و شواہد موجود ہیں، ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے سے قبل ٹی ٹی پی کمانڈر کو بھارت سے کی جانے والی آٹھ فون کالز اور ایک ہمسایہ ملک میں بھارتی خفیہ اداروں کی جانب سے گزشتہ دو برس کے دوران کراچی میں واقع چینی قونصل خانے، اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ اور گوادر میں پی سی ہوٹل پر حملوں کی منصوبہ بندی اور رہنمائی کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اُنہوں نے یہ انکشاف بھی کیاکہ بی ایل اے کے دہشت گرد نے نئی دہلی کے ایک اسپتال میں علاج کروایا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک میں موجود بھارتی سفارتخانہ بلوچ دہشت گردوں کو رقم فراہم کرنے کیلئے تھنک ٹینکوں کو استعمال کررہا ہے۔ اِن حالات کی بناء پر پاکستان کشمیر اور دہشت گردی دونوں معاملوں پر بھارت سے بات چیت کے لئے تیار ہے تاہم اِس کیلئے کشمیر کے حوالے سے عائد کردہ شرائط کا پورا کیا جانا ضروری ہے۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش پر پاکستان کا یہ جواب نہ صرف حقائق کے عین مطابق ہے بلکہ ماضی کے برعکس، جب بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا تھا، بازی الٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ صورتحال مودی حکومت کی تنگ نظری اور ہمسایہ دشمنی پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اور چین سمیت اپنے سارے پڑوسیوں سے بھارت کے تعلقات آج سخت کشیدگی کا شکار ہیں جبکہ کشمیر اور بھارت میں مودی حکومت کی مسلم کش حکمت عملی نے بھارت کی شناخت ایک فسطائی ریاست میں تبدیل کردی ہے۔ بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت آج تاریخ کا حصہ ہے اور اس کا دہشت گرد چہرہ پوری طرح بےنقاب ہو گیا ہے۔ اس امر کا ایک واضح مظاہرہ ممتاز امریکی جریدے فارن پالیسی کی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی رپورٹ کی شکل میں بھی ہوا ہے۔ جیو کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے بالکل درست کہا ہے کہ بھارت کا اصل چہرہ آج مغربی دنیا بھی دیکھ رہی ہے، چین سے تعلقات خراب ہیں اس لئے بھارتی تھنک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سے معاملات ٹھیک کریں۔ افغان امن عمل میں پاکستان کے مؤثر کردار نے بھی خطے میں پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔ ان حالات نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تنازعات منصفانہ طور پر حل کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم کردیا ہے جسے ہوشمندی اور فراست کے ساتھ استعمال کیا گیا تو کشمیر کے دیرینہ تنازع کا کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل اور پورے خطے میں پائیدار امن و استحکام کے دورکا آغاز ہونا ممکن ہے۔

تازہ ترین