• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے باہر پاکستان کی شہرت اچھی ہے مگر ملک کے اندر صورتحال تسلی بخش نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی سیاست حالتِ جنگ میںہے۔ حزبِ مخالف کو عمران خان کی سرکار برداشت نہیں ہو رہی اور جو بھی ردِعمل نظر آ رہا ہے، وہ اسمبلی کے اندر تو بالکل نظر نہیں آرہا۔ حزبِ اختلاف ابھی تک قومی اسمبلی سے استعفوں پر سوچ بچار کر رہی ہے۔ مسلم لیگ کے قائد جو بظاہر علاج کیلئے لندن میںہیں، اُن کو اِس وقت نہ بیماری کا خیال ہے اور نہ ہی علاج کا کوئی سلسلہ۔ وہ وڈیو لنک سےپالیسی بیان تو نہیں مگر نظریاتی باتیں جذباتی انداز میں کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کو اندازہ نہیں کہ اُن کی ایسی بیان بازی سے سب سے زیادہ متاثرہونے والوں شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ چند دن پہلے اُن کے ایک ہمدرد قیصر شیخ نے بتایا کہ شہباز شریف کو ملکی سیاست سے بہت مایوسی ہے اور اِسی وجہ سے اُنہوں نے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لی تھی اور اپنی رضا مندی سے نیب کی حراست میں گئے۔ اُن کو اِس سیاسی جنگ کی سنگینی کا خوب اندازہ ہے۔

ایک طرف اندرون ملک جاری سیاسی جنگ میں فریقین منصوبہ بندی کرتے نظر آ رہے ہیںتو اِس ساری صورتحال میں ملکی ادارے بہت سے معاملات سے چشم پوشی بھی کررہے ہیں۔ عوام کے مسائل پر حکومت کی توجہ کمزور ہے تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کو صرف ووٹ کی حرمت کی فکر ہے جس سے کرپشن کے معاملے کو مٹانا اور دبانا مقصود نظر آتا ہے۔ بظاہر تو پاکستان میں ایک مشکوک جمہوری نظام ہے۔ جس پر کسی فریق کو بھی اعتماد اور اعتقاد نہیں ہے۔ وڈیو لنک سے سابق وزیراعظم عوام کو مشورہ دیتے نظر آتے ہیں ’’جیل جائو‘‘ اور ’’سرکار ہٹائو‘‘۔ اُن کو اپنے ممبرانِ اسمبلی پر شاید اعتبار نہیں ہے۔ اصولی طور پر ایسے تمام معاملات پر باہمی رضا مندی سے بات ہو سکتی ہے اور گنجائش ہے کہ جمہوری اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ووٹ کی حرمت برقرار رہے مگر ووٹ کی حیثیت صرف الیکشن والے دن تک ہوتی ہے۔ اُس کے بعد عوام کی شنوائی اسمبلی میں بالکل نہیں ہوتی اور عوام کی بےبسی کا جلسوں کی رونق بڑھا کر مذاق اُڑایا جاتاہے۔ آنے والے چند ہفتے پاکستان کے لئے اہم ترین نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی نیتا جو اسمبلی کے ممبر بھی نہیں، مسلسل دعوے کر رہے ہیں کہ عمران خان کی سرکار نڈھال ہو چکی ہے، بس ایک دھکے کی ضرورت ہے۔ اندرون ملک سیاست کی جنگ نے ملک کی معیشت کو بھی بدحال کر رکھا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عمران خان کی سرکار کی معاشی مثبت پالیسیاں مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ اِس سیاسی عدم استحکام اور ہمارے سیاسی لوگوں کے کرپشن کے معاملات نے بین الاقوامی اداروں کو ہمارے لئے قانون اور اصول بنانے کا موقع دے رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے لوگ مسلسل ہماری سیاسی جنگ پر نظر رکھتے ہیں۔ اُن کے لوگوں کو ہمارے ماضی کے جمہوری حکمرانوں نے اپنے ایوانوں میں آنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ایک عرصہ سے اُن کی مشاورت سے معیشت کو چلانے میں تابع فرمانی کا بھی مظاہرہ کیامگر اُن پر تنقید کرنے سے ہمارے سیاسی لوگ گریز کرتے رہے۔ پاکستان کی معاشی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ اصول ہیں جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ہمارے لئے بنا رکھے ہیں۔ ملک میں سیاسی اور معاشی خلفشار اپنے عروج پر ہےتوہماری سرحدوں پر بھی صورتحال خاصی مخدوش ہے۔ آزاد کشمیر کی سرحد پر بھارت نے اپنے فوجیوں کو حالتِ جنگ میں بٹھا رکھاہے اور اِس وقت بھارت کے ساتھ ساتھ تمام سرحد پر ہنگامی صورت حال ہے۔ دوسری طرف بھارت چین کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ چین بھی کسی بڑی جنگ کو نظر انداز کر رہا ہے مگر بھارت کا دوست اور ہمارا مہربان ملک امریکہ اس وقت بھارت کی چین کیساتھ مڈبھیڑ ضرور چاہتا ہے اور اِسی لئے بھارت، چین کے ساتھ تو نہیں مگر اپنی بےبسی اور کمزوری کا تاثر ختم کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ جنگ کر سکتا ہے اور ہماری سرکار اور افواجِ پاکستان کو اندازہ ہے کہ ایسا ہوا تو جنگ کو ٹالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ بھارتی تیور اندرون خانہ سیاسی الجھائو کی وجہ سے جنگ پر مائل نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی نیتا اس کیفیت سے کیوں بےخبر ہیں یہ سوال بھی اہم ہے۔

اِس وقت سب سے زیادہ خراب مسئلہ قانون پر عملدرآمد اور انصاف کا ہے۔ ایک تو انصاف میں تاخیر پر توجہ نہیں دکھائی دے رہی اور ایسے معاملات بھی شروع ہو رہے ہیں، جن کی عوامی اور آئینی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ضرورت ہے کہ اُن پر فوری کارروائی کی جائے۔ ملکی رائج سزائوں کی کوئی ایسی حیثیت نہیں ہے کہ قصور وار کو اندازہ ہو سکے کہ اُس نے کچھ خراب کیا ہے۔ نیب نے کتنے لوگوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمے کر رکھے ہیں مگر اُن مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنی جمہوری طاقت نہیں کہ قانون کو ہی بہتر بنا سکیں۔ ملک کی بڑی عدالت کوشش تو بہت کر رہی ہے کہ انصاف کا بول بالا ہو مگر صورتحال بہت مخدوش ہے۔ ہماری فوج ہمیشہ کوشش کرتی رہی کہ جمہوریت رائج رہے مگر ہمارے سیاسی لوگ بدعملی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی سرکار کو گرا کر کیا بھارت کو جنگ سے روکا جا سکتا ہے؟ اِس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اندرونِ ملک معاشی اور سرحدوں پر اپنی آزادی کی جنگ لازمی ہو چکی ہے۔ طبلِ جنگ کا انتظار ہے۔

تازہ ترین