• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے واضح، دو ٹوک اور غیرمبہم لہجے میں عزم کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یوم شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
”ملک میں انتخابات کا انعقاد انشاء اللہ 11مئی کو ہوگا۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے جمہوریت کی اعلیٰ روایات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاک فوج اپنی تمام تر بساط اور صلاحیت کے مطابق، آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتخابات کے صاف، شفاف اور پُرامن انعقاد میں بھرپور معاونت کریگی۔ میں آپکو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ پاک فوج کی یہ معاونت جمہوری نظام کی مضبوطی اور اسے دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے ہوگی“۔
ادھر انتخابات کے التواء کے حوالے سے ایک درخواست خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ ”انتخابات کسی بھی صورت ملتوی نہیں کئے جائیں گے۔ اس بارے میں کوئی شخص نہ سوچے۔ انتخابات کے التواء کا کوئی جواز نہیں۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا”حالات جیسے بھی ہوں، انتخابات وقت پر ہی ہوں گے“۔
جناب چیف جسٹس یقین کامل کی بے لچک پختگی کے ساتھ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، انتخابات میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں ہونے دیں گے۔ کچھ ہی عرصہ قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں کہا تھا کہ ”دھاندلی سے پاک صاف ستھرے انتخابات میرا خواب ہیں“۔ میں اس ملاقات میں موجود تھا اور مجھے لگا تھا کہ یہ بات جنرل کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہے۔ ان کی بدن بولی میں سچائی اور اعتماد کی آمیزش تھی۔ اسی ملاقات میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی ملازمت کی توسیعی میعاد ختم ہونے پر گھر چلے جائیں گے۔ جنرل کی ان ساری باتوں کو باہم ملاکر دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ وہ مشرف کی طالع آزمائی اور جمہوریت کش حکمرانی کے سبب خاکی وردی پہ لگنے والا داغ دھونا چاہتے ہیں۔ حالیہ تقریر میں انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ کس طرح فوج پانچ برس تک جمہوری نظام کے تسلسل کی ضامن رہی ہے۔ اپنے جمہوری تشخص کو لوح تاریخ پر ثبت کرنے کے لئے یہ کیانی صاحب کے لئے بھی سنہری موقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس موقع کو کسی صورت ضائع نہ ہونے دیں گے۔
جہاں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے بیانات نے انتخابات کے حوالے سے قومی عزم کو تقویت دی ہے وہاں کراچی میں نمودار ہونے والی ایک ”سیاسی تکون“ نے بے یقینی کی چنگاریوں کو ایسی ہوا دی ہے کہ حساس لوگوں کو چشم تصور میں ایک دہکتا الاؤ دکھائی دینے لگا ہے۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، پیپلزپارٹی کے رحمن ملک اور اے این پی کے شاہی سید نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گریہ و زاری کی کہ ”دہشت گرد انہیں انتخابی مہم نہیں چلانے دے رہے۔ ساری رونقیں صرف پنجاب میں لگی ہیں“۔ انہوں نے پتہ نہیں کون کون سی اسٹیبلشمنٹ پر ”خون“ کی کون کون سی لکیر کھینچنے کا الزام لگایا۔ فرمایا کہ ایک طرف لبرل جماعتیں ہیں اور دوسری طرف بنیاد پرست اور مذہبی جنوں کی حامل۔ بڑی ہنر مندی کے ساتھ طالبان مخالف اور طالبان حامی کے عنوان سے ایک نئی سیاسی تفریق کا فتنہ اٹھایا۔ رحمن ملک نے (جو پوری انتخابی مہم کے دوران کہیں دکھائی نہیں دیئے) باغیانہ بانکپن کے ساتھ ایک تقریر داغی۔ شاہی سید ہم نشیں ہونے کے باوجود توازن کی راہ پہ چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ بلاشبہ ان کی جماعت چاند ماری کا ٹیلہ بنی ہوئی ہے۔ وہ رابطہ عوام میں سخت مشکلات محسوس کررہی ہے۔ اس کا حلقہ اثر خیبرپختونخوا، کسی قدر بلوچستان کے مخصوص علاقے اور محدود حد تک کراچی میں ہے۔ تینوں جگہ اسے سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جارہی لیکن داد دینا پڑتی ہے ولی خان کے بیٹے اسفندیار کو کہ اس نے ایک بار بھی انتخابات کے بائیکاٹ کا اشارا نہیں دیا۔ وہ ڈنکے کی چوٹ کہتاہے کہ ”انتخابات سے فرار کا مطلب، دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوگا۔ ہم انتخابات میں ہار برداشت کرسکتے ہیں لیکن دہشت گردوں سے نہیں ہاریں گے“۔
”کراچی کی منڈلی“ خاص طور پر رحمن ملک کے جارحانہ پن اور ڈاکٹر فاروق ستار کے اشاروں کنایوں کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہئے۔ ایم کیو ایم کو انتخابات کے لئے 2008ء والی وہ سازگار پچ نہیں مل رہی جو پرویز مشرف نے خاص طور پر اس کے لئے تیار کی تھی۔ فوج کی نگرانی طے ہوچکی ہے۔ ووٹر لسٹوں کو خاصی حد تک درست کرلیا گیا ہے۔ امکان یہ ہے کہ پولنگ ڈے پر مسلح جتھے اور منہ زور گروہ بروئے کار نہ آسکیں گے۔ جعلی اور جبری ووٹ ڈالنا بھی سہل نہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کے لئے یہ سب کچھ بہرحال کوئی سہانا خواب نہیں۔ اس کی تاریخ بائیکاٹوں سے عبارت رہی ہے۔ الطاف حسین اور تحریک کے دیگر رہنماؤں کے بیانات سے صاف جھلک رہا ہے کہ بائیکاٹ ان کی ترجیحات میں خاصا اوپر ہے۔
پیپلزپارٹی اور ق لیگ کا اتحاد بھی تحلیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ منظور وٹو صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان ان کی مخلوط حکومت کا وزیراعظم ہو سکتا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جیو کے ایک پروگرام میں ایک بار پھر اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ”انشاء اللہ عمران خان، مسلم لیگ (ن) کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچائے گا“۔ قمرزمان کائرہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تین صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی وجود نہیں اور پنجاب میں عمران خان اس سے نبٹ لے گا“۔ ایک شائستہ مزاج نوجوان کے طور پر مونس الٰہی مجھے اچھا لگتا ہے۔ اس کے ایک بیان کا حوالہ برادرم خوشنود علی خان نے دیا جس کے مطابق مونس نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دی کہ جہاں ان کا امیدوار نہیں وہاں پی ٹی آئی کی مدد کی جائے۔ دیکھنا چاہئے کہ یہ حکمت عملی کتنی کامیاب رہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ذریعے ”ن“ لیگ کے ووٹ توڑ کر پی پی پی پانچویں بار حکومت بنالے گی لیکن رحمن ملک کی تازہ لپک جھپٹ سے لگتا ہے کہ پی پی پی، ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر بائیکاٹ کا راستہ بھی اپنا سکتی ہے۔
کراچی میں قتل و غارت گری آج نہیں ہوئی،پانچ سال سے جاری ہے۔ اس حکومت میں فاروق ستار، رحمن ملک اور شاہی سید تینوں کی جماعتیں شامل تھیں۔ خون بہتا رہا، آگ بھڑکتی رہی، جنازے اٹھتے رہے اور یہ اطمینان و سکون سے حکومت کرتے رہے۔ اگر اس سب کچھ کے باوجود پانچ سال حکمرانی ہو سکتی ہے تو الیکشن کا ایک دن کیوں نہیں گزارا جاسکتا؟ اور پی پی پی بتائے کہ پنجاب میں اپنی مہم چلانے سے اسے کس نے روکا ہے جس کے ووٹوں سے وہ ہمیشہ تختِ اقتدار پر براجمان ہوتی رہی ہے؟
جنرل کیانی اور جسٹس افتخار چوہدری کے یقین افروز بیانات کے بیچوں بیچ کراچی کی منڈلی کا واویلا یقینا خطرے کی نشانی ہے۔ شیخ الاسلام تو پس منظر میں چلے گئے لیکن الیکشن کو متنازع بنانے والے ان نئے کرداروں پر نظر رکھنا ہوگی۔آخری عشرہ شروع ہوچکا،کیا ہم یہ پل صراط عبور کرپائیں گے؟
تازہ ترین