• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے زرعی مشینری کے الاٹمنٹ سرٹیفکیٹ اور ای کریڈٹ اسکیم کے چیک تقسیم کیے۔تقریب میں ارشاد عارف، ڈاکٹر صغریٰ صدف، آصف عفان، احمد خان بھچر اور بہت سے صحافی دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔اربابِ شعبہ ِ زراعت سے بھی ہیلوہائے کی۔ بے شک زرعی اکانومی ہونے کے باوجود ہمیں فوڈ سیکورٹی پر کام کرنے کی ضرورت زیادہ ہے مگرماضی کی حکومتیں نظر انداز کرتی رہیں۔

پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں 40 فیصد ورک فورس کا تعلق زراعت سے ہے مگروہیں بچے غذائی کمی کا بھی شکار ہیں۔ یعنی چراغ تلے اندھیرا ہے۔یہ جو کچھ پورا ملک کھاتا ہے، یہ کسان کی بے پناہ محنت کا ثمر ہوتاہے۔محل ہو یا جھونپڑی۔ فائیواسٹار ہوٹل ہوں یا لنگر خانے۔ ہر جگہ کسان کی محنت کے دسترخوان سجےہوتے ہیں۔

یہی محنت ہماری معیشت کی شہ رگ ہے۔فوڈ انڈسٹری، فاسٹ فوڈ انڈسٹری اور بالخصوص fast moving consumer goods کا اسی پر انحصار ہے۔ لاکھوں لوگوں کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔ مگر افسوس کہ محنت کش کسان کا کسی نے خیال نہیں رکھا۔

پچھلے سال ورلڈ بینک نے کہا کہ پنجاب کا زرعی شعبہ تبدیلی کی طرف راغب ہے۔ بے شک پنجاب کے جی ڈی پی میں زراعت بیس فیصد حصہ ڈالتی چلی آ رہی ہے مگرپچھلے چند سالوں میں حکومتی بے اعتنائی کے سبب زراعت کا شعبہ کمزور ترہوا۔ اس سے جڑے لوگ مسائل کا شکار ہوئے۔ ادھار پر بیج، کھاد اور زرعی ادویات خریدیں مگر خاطر خواہ فصل نہ ہوسکی۔

کبھی بے وقت بارشیں ہوگئیں، کبھی اولے پڑ گئے، کہیں سیلاب آ گیا، کبھی کیڑے مارنے والی ادویات ناقص ثابت ہوئیں اور غریب کسان کی کمر قرضوں نے دہری کردی۔یعنی دوسروں کیلئے خوراک پیدا کرنے والا خود روٹی کو ترس گیا۔ امید افزا بات یہ ہے کہ جس تبدیلی کا ذکر ورلڈ بینک نے کیا تھا۔ وہ پنجاب میں آہستہ آہستہ دکھائی دینے لگی ہے۔فصل انشورنس اسکیم کے تحت گزشتہ ایک سال میں 3 لاکھ کسانوں کو رجسٹر کیا گیا، یعنی کئی لاکھ خاندان معاشی بدحالی سے محفوظ رہے۔

عمران خان بھی زراعت کے شعبے پر پوری توجہ دے رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تو خود اس شعبے میں خاصی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کے اقدامات نے زرعی معیشت کی سمت درست کر دی ہے۔ان کی حکومت اب تک کاشتکاروں کو 46 کروڑ روپے کی جدید زرعی مشینری امدادی نرخوں پر دے چکی ہے۔ پہلی بارپنجاب میں کاشت کے پوٹینشل کوجانچا گیا ہے۔ اس شعبے کی استعداد کار مسلسل بڑھائی جارہی ہے۔

فصلوں کی 80 نئی قسموں کی منظوری دی گئی ہے۔ پیداوار کو بڑھانے کےلئے ریسرچ کلچر پیداکیا جارہا ہے، جس کیلئے 6 ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔ شکر ہے کہ اس سال گندم، چنے اور کینولا وغیرہ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ 78 ہزار ایکڑ بنجر اراضی کو قابل استعمال بنایا جاچکا ہے۔ اب تک کسانوں کوبزدار حکومت 35 ارب روپے کے بلا سود قرضے فراہم کر چکی ہے۔

ایک اور کام جو پچھلی حکومتیں نہ کر سکیں۔ یعنی شوگر ملوں سے کاشتکاروں کو 99 فیصد واجبات کی ادائیگی یقینی بنائی گئی۔ ای کریڈٹ اسکیم کے قرضوں میں ربیع کی فصل کیلئے 5 ہزار اور خریف کیلئے 10 ہزار کا اضافہ کیا گیا۔ خاص طور پر کسانوں کو کھاد، بیج اور زرعی آلات پر سبسڈی کی فراہمی اُن کےلئے زندگی کی فراہمی ہےلیکن زراعت کا شعبہ چند یا معمولی اصلاحات سے ٹھیک نہیں ہو سکتا اوراس شعبے میں ملکی معیشت کو سنبھالنے اور پروان چڑھانے کی مکمل گنجائش موجودہے۔ یقیناً اسی لئے عثمان بزدار ذاتی دلچسپی لے کر قابلِ تحسین اقدامات کررہے ہیں مگر یہاں عمران خان کو داد دینا بھی ضروری ہے جنہوں نے 300 ارب روپے کی لاگت سے وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام شروع کیا۔

اُسی کے سبب زراعت سے تعلق رکھنے والی ورک فورس استحکام کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک کسان خوشحال نہیں ہوگا، زرعی معیشت مستحکم نہیں ہو گی نہ ملکی معیشت کو استحکام ملےگا اور جب تک ملکی معیشت مضبوط نہیں ہوتی، غریبوں کےلئے حکومت مجبوراًلنگر خانے کھولتی رہے گی۔ لنگر خانوں سے یاد آیاکہ پنجاب میں ماڈل لنگر خانے بنائے جارہے ہیں۔ اس وقت صرف لاہور میں گیارہ مقامات یہ لنگر خانے قائم کئے جا چکے ہیں۔ یہاں روزانہ 5 سے 6 ہزار لوگ کھانا کھاتے ہیں۔

باقاعدہ ایک مینو فالو کیا جاتا ہے۔عمران خان کو جب ان لنگر خانوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو انہوں نے طاہر خورشید کی اس کاوش کو سراہا اور اس کا دائرہ کار باقی اضلاع میں پھیلانے کی ہدایت دی۔ ان لنگر خانوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے آپریشنز یا تعمیر کیلئے حکومتی خزانے پر ایک روپے کا بھی کوئی مالی دبائو نہیں۔ حکومت کا کام صرف facilitate کرنا ہے۔یہ تمام لنگر خانے قابلِ استطاعت لوگوں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت چلائے جارہے ہیں۔4 لنگر خانے گوجرانوالہ میں،4 ملتان میں، 4 فیصل آباد میں اور 5 ڈیرہ غازی خان میں کھولے جارہے ہیں۔ یقیناً لوگ ان لنگر خانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ پاکستانیوں سے زیادہ کھلے دل کسی قوم کے نہیں۔ بہر حال یہ طے ہے کہ پنجاب بدل رہا ہے۔ بدلتے ہوئے میانوالی کا آنکھوں دیکھا حال میں قارئین کو سنا چکا ہوں۔

اب پورے پنجاب کا ایک دورہ کرنے لگا ہوں یہ دیکھنے کےلئے کہ کہاں کہاں کیا تبدیل ہوا ہے یا ہورہا ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب میں کیا کیا تبدیلی آئی ہے کیونکہ پنجاب کا وہ حصہ بہت زیادہ پسماندہ تھا۔ خاص طور پر بھکر، لیہ اور ڈی جی خان کے حالات بہت نا گفتہ بہ تھے۔فیصل آباد اور سیالکوٹ بھی جائوں گا، پورے گوجرانوالہ ڈویژن کا احوال لکھوں گا اور صلائے عام ہوگی یاران ِ نکتہ دان کے لئے۔

اور آخر میں پھر وہی زراعت۔ بے شک ہمیں سی پیک سے بڑی امیدیں ہیں۔ بے شک ہمیں صنعتی ترقی درکار ہے۔ بے شک ہمیں انرجی کےلئےبڑے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے مگر یہ طے ہے کہ پاکستان کا تابناک مستقبل زراعت سے وابستہ ہے، ہمیں اس طرف خصوصی توجہ دینا ہو گی۔

تازہ ترین