• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات ایک ہفتے کے فاصلے پر ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ یہ رہا کہ طالبان نے جن سیاسی جماعتوں کو دہشت گرد حملوں کی دھمکی دی تھی، ان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ درجنوں سیاسی کارکن اور رہنما ہلاک ہو چکے ہیں۔ پختونخوا میں اے این پی کی قیادت حملوں کی زد میں ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی مہم حقیقی معنوں میں شروع ہی نہیں ہو پائی۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ طالبان نے اپنی نام نہاد امن پیشکش میں جن جماعتوں کو ضامن ٹھہرانے کا مطالبہ کیا تھا، ان کی مہم بلاروک ٹوک جاری ہے۔ تینوں چھوٹے صوبوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صرف پنجاب میں انتخابی مہم پُرامن طور پر جاری ہے۔ وفاقی اکائیوں کے مابین نازک توازن کے تناظر میں پنجاب کے خصوصی کردار کا یہ تاثر مناسب نہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے قابل فہم طور پر دہشت گردی کے ان واقعات کو سیکولر اور روشن خیال جماعتوں کے خلاف قبل از انتخاب دھاندلی قرار دیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ تینوں جماعتوں نے دہشت گردی کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ اگر ملک کے مختلف حصوں میں عوامی حمایت کی مصدقہ تاریخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو تشدد کے ذریعے رائے دہندگان سے رابطہ کرنے سے روکا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انتخابی معرکے میں شامل جماعتوں کو مقابلے کے لئے یکساں حالات میسر نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں انتخابی نتائج اور آئندہ منتخب حکومت کی ساکھ پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی۔ دہشت گردوں سے امن کی اپیل کرنا بے معنی ہے تاہم مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے دہشت گردی کے اس رجحان کے خلاف مضبوط موٴقف اختیار نہ کر کے اپنی سیاسی بصیرت کا اچھا نمونہ پیش نہیں کیا۔ قوم کو درپیش معاشی اور خارجی مسائل اپنی جگہ لیکن ان مسائل کے حل کا راستہ بھی تو انتخابات ہی سے نکلتا ہے۔ آنے والی حکومت کو قومی مفاد میں جو سخت فیصلے کرنا ہیں، ان کے لئے ضروری ہو گا کہ حکومت کی منتخب حیثیت کسی شک و شبہ سے بالا ہو۔ منتخب حکومت کی جمہوری ساکھ شفاف انتخابات سے متعین ہوتی ہے۔
دسمبر 2007ء کا پہلا ہفتہ ہنگامہ خیز تھا۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم ) انتخابات کے بائیکاٹ پر مائل تھی۔ پیپلز پارٹی نے اعلان کر رکھا تھا کہ مشرف حکومت کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے3 دسمبر اور پھر9 دسمبر کو میاں نوازشریف سے دو بار ملاقات کی اور بالآخر انہیں انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کر لیا۔ محترمہ بینظیربھٹو نے 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ایک تلخ سبق سیکھا تھا اور وہ جمہوریت کے مفاد میں چاہتی تھیں کہ مسلم لیگ نواز جیسی اہم جماعت انتخابات میں حصہ لے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف نے ایک بار پھر بائیکاٹ کا عندیہ ظاہر کیا تو آصف زرداری سامنے آئے اور میاں صاحب کو اس ارادے سے باز رکھا۔ اب وقت ہے کہ میاں نواز شریف اسی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں اور جماعتی مفاد سے بالا ہو کر جمہوریت کے لئے درکار وسیع تر اتفاق رائے کے حق میں اپنا وزن ڈالیں۔ رواں سال کے شروع میں ایک مولانا نے اسلام آباد میں سرکس لگایا تو میاں نواز شریف نے لاہور میں حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کا اجلاس بلایا تھا۔ اس اجلاس کے اعلامیے سے حکومت کو وہ اخلاقی تائید میسر آئی کہ وہ چائے کی پیالی میں اٹھنے والے ممکنہ طوفان سے نمٹ سکے۔ اب حالات جنوری کے مقابلے میں کہیں زیادہ نازک ہیں۔ نگران حکومت کے پاس وہ اختیارات نہیں جو منتخب حکومت کو حاصل ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف نے دہشت گردی کی مذمت تو کی ہے لیکن یہ معاملہ رسمی مذمت سے آگے کا ہے۔ انتخابی مہم کی گرما گرمی میں وسط جنوری جیسا اجلاس بلانا غالباً ممکن نہیں لیکن نشانے پر آنے والی جماعتوں کے علاوہ دیگر اہم سیاسی قوتوں سے مل کر ایک سنجیدہ اعلامیہ جاری کیا جا سکتا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ انتخابات میں حریف ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں جمہوریت دشمن قوتوں کو یہ موقع نہیں دیں گی کہ وہ پاکستان کے سیاسی مکالمے کو بندوق کے بل پر یرغمالی بنا سکیں۔ طالبان کو یہ پیغام دیا جانا چاہئے کہ پاکستان کے آئین اور جمہوری بندوبست پر یقین رکھنے والی سیاسی قیادت میں ان کے اشارے پر پھوٹ ڈالنا ممکن نہیں۔ یہ سمجھنا درست نہیں کہ صرف تین جماعتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں زہری قبیلے کے رہنماؤں پر حملہ کرنے والوں نے مسلم لیگ نواز کی ان کوششوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے جن کا مقصد بلوچستان کی موٴثر قیادت کو پاکستانی سیاست کے دھارے میں واپس لانا تھا۔ چنانچہ جمہوری قوتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو سیاسی جماعت بھی برسراقتدار آئے گی، طالبان اس کی مخالفت کریں گے۔ ان کا مقصد جمہوری بندوبست پر عوام کا اعتماد ختم کرنا ہے۔ طالبان کسی کے دوست نہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ طالبان کے بارے میں گول مول رویہ اختیار کر کے ان کے دل جیتے جا سکتے ہیں یا پاکستان میں طالبان سے ہمدردی رکھنے والے گروہوں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ طالبان کا عفریت کسی غار میں پوشیدہ نہیں۔ یہ آسیب پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شہروں میں دندنا رہا ہے اور پاکستان کے چالیس ہزار شہریوں کو نگل چکا ہے۔
دہشت گرد جمہوری عمل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے اس مقصد کے لئے التزام سے ان جماعتوں کا انتخاب ہی کیوں کیا جو روایتی طور پر ہیئت مقتدرہ کی آنکھ کا کانٹا رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی 65 برس سے، پیپلز پارٹی 45 برس سے اور ایم کیو ایم مختصر وقفوں کو چھوڑ کر 25 برس سے ہیئت مقتدرہ کے عتاب کا نشانہ رہی ہیں۔ اس تکلیف دہ صورتحال میں روشنی کی ایک لکیر یہ ہے کہ ملک کی تین بڑی جماعتوں نے کھل کر اپنے سیکولر اور روشن خیال تشخص کا اقرار کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہیئت مقتدرہ نے سیکولر سیاست کرنے والے گروہوں کو کبھی اعتماد کے قابل نہیں سمجھا۔ دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کی بنیادوں میں سیکولر قوتوں ہی نے اپنا خون ڈالا۔
مسلم لیگ حکومت کے غیر جمہوری رویوں کو عبدالغفار خاں اور میاں افتخارالدین جیسے سیکولر رہنماؤں نے للکارا۔ ایوب کے خلاف مزاحمت سہروردی نے کی۔ ضیاء الحق کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے قربانیاں دیں۔ سیاسی قیادت پر وراثتی سیاست کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جمہوری سیاست کی حد تک اس وراثت کی حقیقت یہ ہے کہ باپ کو پھانسی دی گئی اور بیٹی کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر کسی کو سیکولر سیاست سے اختلاف ہے تو اسے بھی قربانی کی یہی روایت قائم کرنا ہو گی۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں اس تاثر کو رد کر دیا جائے کہ سیکولر روشن خیال سیاست کرنے والے کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ اگر جمہوریت مختلف مکاتب فکر میں بقائے باہمی کا نام ہے تو اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف حملوں کی دو ٹوک اور بامعنی مذمت کی جانی چاہئے۔
تازہ ترین