• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں آج ہم ”سرسیدڈے“ منا رہے ہیں اور یہ دن ہم ہر سال 17اکتوبر کو مناتے ہیں لیکن اتنی سادگی کے ساتھ کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دیتے۔ کہیں کوئی تقریب ہوتی ہے نہ کیک کاٹا جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا تو کجا پرنٹ میڈیا بھی اس دن کو اسی سادگی سے منانے کا عادی ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ سرسیدؒ اتنی غیر اہم اور چھوٹی شخصیت ہیں کہ بڑے بڑے دانشوروں اور اخبار نویسوں کو بھی نظر نہیں آتے؟ یا پھر شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم اتنے چھوٹے ہیں، ہمارے شعور کی سطح اور فکر ہنوز اتنی پست اور تنگ و تاریک ہے کہ سرسیدؒ جیسی مہان ہستی اس میں سما ہی نہیں سکی۔ دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں قصور وار کوئی اور نہیں، خود محبانِ سرسیدؒ ہیں جو اتنے تن آسان اور سہل پسندہیں کہ اتنی جامع الصفات شخصیت اور اس کے افکار کو نسل نو تک منتقل کرنے کے لئے ان کے خون میں کوئی تپش نہیں اٹھتی ۔ ایک آرزو ہے کہ ہر سال 17اکتوبر کو سرسید ڈےکی حیثیت سے منایا جائے۔ قومی سطح پر اس سلسلے میں علمی و فکری تقاریب ہوں، بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں میں علمی وادبی مذاکرے ہوں تاکہ قوم کی علمی و فکری سطح بلند ہوسکے، نوجوانانِ قوم کے اذہاں میں مزید نکھار آسکے۔ جنوبی ایشیا میں سرسیدؒ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے عصری تقاضوں کے مطابق اُس وقت کی مسلمان نسل کو نہ صرف یہ کہ انگلش میڈیم تعلیم پر لگایا بلکہ جدید سائنٹفک علوم کی طرف راغب کیا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے روایتی حلقوں میں انگریزی یا سائنسی مضامین پڑھنے کو گناہ اور بے دینی و الحاد قرار دیا جا رہا تھا۔

علی گڑھ کالج قائم کرنے کےلئے سرسیدؒ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال دی، کیسے کیسے طنز و تضحیک کے نشتر ان پر نہ چلے۔ سرسیدؒ نے عصری علوم کی مناسبت سے جس جدید تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی، دیے سے دیا جلااور ہوئے حیدرآباددکن سے پنجاب اور سندھ تک پورے ہندوستان میں درماندہ مسلمان نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔

یہ اُسی مردِ خود آگاہ کی فکری عظمت کا کمال ہے کہ مسلمانان ِ جنوبی ایشیا جدید تعلیم اور علوم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اپنی ہم عصر اقوام کے دوش بدوش چلنے کے قابل ہیں۔سرسیدؒ ہماری قومی زندگی کے محض ماضی کے ہی نہیں بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کے بھی معمار ہیں، وہ کیسے؟ ہم اس باریک نکتے کی تھوڑی وضاحت کرتے۔ 19ویں صدی میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ انگریزی اور ماڈرن سائنٹفک علوم پر دسترس حاصل کرنا گناہ اور معصیت سے خالی نہیں، آج بھی ہمارے اندر قدامت پسندی اتنی شدید ہے کہ طرز کہن پر اڑنا اور آئین نوسے ڈرنا جیسے ہماری گھٹی میں ہے۔ ہمارے انگریزی تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے بظاہر جینز پہنے یا ٹائی لگائے بہت سے نوجوان ہیںجن کی نمائشی انگریز یت اچھل رہی ہوتی ہے لیکن دماغ یا شعور کے تمام خانوں میں قدامت پسندی ٹھنی ہوتی ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ انگریزیت اور ماڈریٹ اپروچ دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر آپ دوسرے عقیدے والوں کو حقارت آمیز امتیازی نظروں سے دیکھتے ہیں، آپ قومی، نسلی، وطنی، مذہبی، لسانی یا آبائی تفاخر کے انہی تعصبات میں مبتلا ہیں، اگر آپ میں رواداری، برداشت، تہذیب اور انسانیت نہیں آئی تو نہ آپ کی اپروچ ماڈریٹ ہے اور نہ ہی سر سیدؒاور ان کے بچھائے ہوئے جدید تعلیمی اداروں نے آپ کا کچھ بگاڑا ہے۔ مجھے ایک دن محترم ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ آج میں اگر مسلمان ہوں تو اس کا کریڈٹ سر سیدؒ کو جاتا ہے، میرے استفسار پر انہوں نے مجھے سر سیدؒ کی تفسیر کے حوالہ جات نکال کر دکھائے۔ جنوبی ایشیا میں سرسیدؒ وہ پہلے مسلم اسکالر ہیں جنہوں نے صرف تفسیر القرآن ہی نہیں لکھی بلکہ بائبل کی تفسیر تبعین الکلام بھی تحریر فرمائی۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلم شعور جوں جوں فکری بلندی کی طرف گامزن ہو گا، سر سیدؒ کے سائنٹفک افکار کو قدم بہ قدم اپنے سامنے محسوس کرے گا، تب اس کے اندر سے یہ آواز ازخود آئے گی کہ سر سیدؒ ہمارے ماضی کے ہی نہیں حال اور مستقبل کے بھی رہنما ہیں۔اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اعترافِ عظمت کرتے ہوئے اپنے نونہالوں کو سرسیدؒ اور ان کی سائنٹفک فکر کے قریب لائیں، ان کی حقائق شناسی اور حقیقت پسندی سے آگہی بخشیں۔ اقبال اور قائدنے ان کی جن خدمات کے سامنے سرجھکایا ہے، ایک قومی امانت خیال کرتے ہوئے اسے آگے پہنچائیں۔ ہم مانیں نہ مانیں ہماری قومی سوچ میں روایت اور جدت کی ایک کشمکش چل رہی ہے اگر ہم نے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اقوام عالم کے دوش بدوش چلتے ہوئے سربلند ہوناہے تو ہمیں روایت کا احترام کرتے ہوئے جدت کو توانائی بخشنا ہو گی، اِس سفر میں جو شخصیت ہماری معیاری فکری رہنمائی کر سکتی ہے، اس کا نام سرسیدؒہے جسے بلاجواز اس قدر اجنبیت میں رکھا گیا ہے کہ لاہور جیسے شہر میں بھی کوئی بڑی سڑک، عمارت یا ادارہ اس کے نام سے منسوب نہیں ہے۔ اقبال ”سید کی لوح تربت“ پر کیا خوب نمائندگی کرتے ہیں۔

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں

ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے

دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

تازہ ترین