• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے بخوبی احساس ہے کہ جس موضوع پر میں قلم اٹھا رہا ہوں وہ بے وقت کی راگنی کے مترادف ہے مگر تین چار ٹیلیفون، دو صاحبان کی بذات خود تشریف آوری، لاہور سے ایس ایس ایچ زیدی صاحب کے خط کی وجہ سے یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں، گو زیدی صاحب سمیت میں نے سب پر صورتحال واضح کی مگر ان کا استدلال یہ تھا کہ اس وقت وزارت خزانہ میں 2013-14ء کا بجٹ بن رہا ہے اگر یہ مسئلہ فی الوقت اٹھایا گیا اور سیکرٹری وزارت خزانہ کے نوٹس میں لایا گیا تو اس پر غور و خوض کا امکان ہے اگر یہ فی الوقت موخر ہوگیا تو نہ معلوم یہ پھر کب زیر بحث آئے۔ پھر اتفاق سے راقم کا بھی تعلق اسی طبقے سے ہے لہٰذا محرومین کا حق بنتا ہے کہ وہ مجھ سے اس کی ادائیگی کا مطالبہ کریں۔
پہلے مسئلہ سمجھ لیجئے۔ 1995ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت نے ازراہ قدردانی22-1 گریڈ کے جملہ سرکاری ملازمین بشمول دفاع وغیرہ کو ان کی بنیادی تنخواہوں کی 7 فیصدی رقم ان کی پنشنوں میں شامل کرنے کی منظوری دی۔ 2001ء میں یہ سلسلہ ختم کردیا گیا، 2010ء میں فیڈرل سروس ٹریبونل نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اس کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس مرتبہ اس کا اطلاق ان ملازمین اور پنشنروں پر ہوگا جنہوں نے یکم جون 1995ء سے30 جون2001ء کے درمیان ملازمت کی یا ریٹائر ہوئے“۔
گویا 1995ء سے پہلے ریٹائرڈ ہونے والے آسودہ حال ہیں اور وہ اس رعایت کے مستحق نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول عدل و انصاف کے خلاف ہے لہٰذا سیکرٹری وزارت خزانہ سے درخواست کی گئی کہ وہ اس دوعملی کا خاتمہ کر کے جملہ ریٹائر ہونے والوں کو اس رعایت سے مستفید ہونے کا موقع عطا کریں جبکہ اس طبقے میں اسّی، نوّے اور سو سالہ پنشنرز شامل ہیں۔یہ درست ہے کہ اس وقت سرکاری افسران، ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، مقررین، اینکرز سب پر الیکشن کا بھوت سوار ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان سطور کے لکھتے وقت الیکشن میں 9 دن کا وقفہ ہے مگر ہر روز کسی ذمہ دار فرد کی جانب سے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ الیکشن میں ایک روز کی بھی تاخیر نہیں ہوگی (26/اپریل چیف الیکشن کمشنر) الیکشن کے بحث و مباحثے سے جو وقت بچتا ہے وہ سابق صدر مملکت کی نذر ہو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان آ کر سنگین غلطی کی اور اب یہاں سے باہر نکلنے کی جدوجہد میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ ان کے تینوں حلقوں سے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں اور ان کو کئی مقدمات کا سامنا ہے البتہ ان کی قائم کردہ مسلم لیگ زندہ ہے اور انتخابات میں شرکت کی بھی متمنی ہے۔
جہاں تک گزشتہ حکومت کا تعلق ہے اس کے گزشتہ پانچ سال کے کارناموں کی تفصیل اخبارات میں شائع ہو رہی ہے اس میں اکثر مغالطہ آمیز اعداد شامل ہیں مثلاً زرمبادلہ کی رقم 14/ارب بتائی گئی جبکہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر6/ارب کے قریب ہیں اور ابھی آئی ایم ایف کے قرضے کی ایک قسط ادا کرنا ہے یا ٹیکس کی وصولی کی رقم 2380/ارب بتائی جا رہی ہے حالانکہ یہ وہ رقم ہے جو ابتدائی ہدف کے طور پر مقرر کی گئی تھی اور اس میں مسلسل تخفیف کی جا رہی ہے اب ہدف 2116/ارب ہے اور اس کا حصول بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔ آئندہ سال کے بجٹ میں دفاع کے بعد سب سے بڑی رقم زراصل اور سود کی ہوگی۔ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ پانچ سال میں 3289 میگاواٹس بجلی کا اضافہ کیا گیا جبکہ سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ اسی دوران ہوئی۔ گیس کی شدید قلت بھی اسی دور میں نظر آئی۔ گندم کی زائد پیداوار کا تو ذکر ہے مگر کپاس کی پیداوار میں کمی کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ 100 کلو گندم کی قیمت 1200 روپے کرنے پر فخر کیا گیا مگر آٹے کی مہنگائی کی شکل میں اس کے اثرات کا کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا، آٹے کی مہنگائی سے باسمتی چاول (120 روپے کلو) ٹوٹا چاول (90) کالا چنا (90) سفید چنا (95) چنے کی دال (110) ماش کی دھلی دال (130) دھلی مونگ (100) چینی (52) سیاہ چائے (432) پیاز (52) گائے کا گوشت (350) انڈہ (75 روپے درجن) کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں، وہ پنشنرز جن کی ماہانہ پنشن 7/6 ہزار روپے ہے انہیں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں بڑی دشواری کا سامنا ہے۔ ضعیف پنشنرز اور ان کی شریک حیات طرح طرح کے امراض میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ راقم آٹھ دوائیں صبح اور 6 رات کو مستقلاً کھاتا ہے، میری ایک دوا AVODART کا پیکٹ جس میں 30 کیپسول ہوتے ہیں جو روزانہ ایک کھایا جاتا ہے کی قیمت دو ہزار روپے ہے، ولیٹرال جو صبح و شام کھائی جاتی ہے اس کی قیمت 720 روپے ہوتی ہے۔ میری دواؤں کا ماہانہ بل5 اور 6 ہزار کے درمیان رہتا ہے اگر بخار یا کسی معمولی شکایت کے لئے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑے تو200 روپے ان کی نذر کرنا پڑتے ہیں۔ ہارٹ اسپیشلسٹ اور یورالوجسٹ کی فیس800 روپے ہے، اپنی کیفیت سے دوسرے بزرگ پنشنروں کی حالت کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔پنشنروں کے حلقے میں اس خبر سے سراسیمگی پھیل گئی کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پالیسی بورڈ دواؤں کی قیمتوں میں10 سے20 فیصد اضافہ کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس صورت میں پنشنروں کا یہ مطالبہ سو فیصدی حق بجانب ہے کہ 1995ء سے قبل ریٹائر ہونے والوں کو بھی7 فیصد مہنگائی الاؤنس سے فیضیاب کیا جائے، گو کہ اس طرح ملنے والی رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کی مانند ہوگی لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
حکومت کو قلت فنڈ کا شکوہ نہیں کرنا چاہئے اس کے سارے کام چل رہے ہیں اسی مہینے پی آئی اے کے ملازمین کی پنشن میں 10 سے 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔ پنشنروں اور غریب طبقات کی امداد کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو دواؤں کی قیمتوں میں 5 فیصدی سے زیادہ اضافہ کرنے کی اجازت نہ دینا چاہئے۔ایک اہم خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں جہاں بلڈ کینسر کے 12 ہزار مریض ہیں وہاں صوبائی حکومت Novartis کے تعاون سے ایک منصوبہ چلا رہی ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کی ہر ماہ ہر مریض کو بلاقیمت فراہم کی جاتی ہے، کیا کوئی صوبائی حکومت کسی دواساز کمپنی کے تعاون سے ہیپاٹائیٹس کے چودہ ہزار والے انجکشن کو بلاقیمت یا معمولی قیمت پر مریضوں کو فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتی ہے۔ انسان دوستوں کی دنیا میں کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں بشرطیکہ تڑپ حقیقی ہو۔
تازہ ترین