• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 2009ء کی بات ہے، میں یونیورسٹی آف شکاگو امریکہ میں ایک کورس کے سلسلے میں گیا تھا ، ہمیں لیکچر دینے والے شخص کا نام ڈیوڈ پلوفی (DAVID PLOUFEE) تھا درمیانے قد کے اس شخص کی شخصیت کچھ زیادہ متاثر کن نہ تھی، لیکن اس شخص کو گفتگو کا فن آتا تھا وہ بڑی روانی سے گفتگو کرتا تھا اور اس فن گفتگو نے اس کی شخصیت کی ظاہری خامیوں کو ڈھانپ رکھا تھا، ہمارا یہ کورس سیاست اور انتخابی مہم کے حوالے سے تھا اور ڈیوڈ وہ شخص تھا جس نے امریکی صدر کے لئے ایک سیاہ فام شخص کی انتخابی مہم کو چلانے کا بیڑہ اٹھایا تھا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امریکہ جیسے آزاد خیال ملک، جہاں امریکن شہری کے لئے برابری کی بات کی جاتی ہے اور بظاہر ہر گورے کالے کو یکساں مواقع دستیاب ہیں لیکن امریکی صدر کے لئے ایک سیاہ فام کو صدر بنانے کے لئے گوروں کی حمایت حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے، جہاں مکمل آزاد خیالی کے باوجود آج تک کوئی امریکن خاتون امریکہ کی صدر نہیں بن سکی، لیکن ڈیوڈ نے ان سارے حقائق کو جانتے اور سامنے رکھتے ہوئے سیاہ فام صدارتی امیدوار باراک اوباما کی سیاسی مہم کو چلانے کی ٹھان لی اور اس نے بڑا عام سا لیکن بڑا معنی خیز سلوگن متعارف کرایا اور وہ تھا " We Want Change" ہم تبدیلی چاہتے ہیں، ڈیوڈ ہمیں بتا رہا تھا کہ اس نعرے کو بنیاد بنا کر ہم نے صدر اوباما کے لئے ان لوگوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا جن کا سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ لینا دینا نہ تھا، انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں تھی کہ کون صدر بنتا ہے اور کون نہیں اور ان لوگوں کی بڑی تعداد یوتھ کی تھی اور وہ بچے جن کا ووٹ بھی نہیں تھا وہ بھی " We Want Change" کی مہم کا حصہ بننے لگے، پاکستان میں انتخابی کارنر میٹنگ کی طرز پر امریکہ میں ”کاکس“ CACAUS منعقد ہوتی ہے جو شام کی بجائے صبح آٹھ بجے ہوتی ہے، ڈیوڈ بتارہا تھا کہ کاکس کے لئے نوجوانوں کی بڑی تعداد سردی کے باوجود آٹھ بجے کی بجائے 6بجے ہی انتخابی مہم کیلئے اکٹھی ہوجاتی، پھر ان نوجوانوں اور بچوں نے اپنے گھروں میں بھی " We Want Change" اور اوباما کی بات کرنا شروع کردی اور ان بچوں نے اپنے والدین اپنے بوڑھے دادا دادی اور نانا نانی کو بھی مجبور کرنا شروع کردیا کہ وہ " We Want Change" کا حصہ بنیں اور اوباما کا ساتھ دیں یوں ایک مثبت سلوگن ا ور سمارٹ انتخابی مہم نے روایات کے برعکس امریکہ کا صدر ایک سیاہ فام شخص کو بنادیا، یہ سارا واقعہ مجھے پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان کا ٹی وی چینلز پر دکھایا جانے والا ایک انتخابی اشتہار دیکھ کر یاد آیا، عمران خان نے پہلے دن سے اپنی مہم میں نوجوانوں کو تبدیلی کا نعرہ دے کر اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ اس کے ا س اشتہار نے کردکھایا ہے جس میں فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ کو عنوان بنا کر نوجوان کے ہاتھ میں بلا تھما دیا ہے اور ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں جو کچھ دیکھ کر کڑھتے ہیں اس کے خلاف ایک نوجوان کو بلا دے کر کھڑا کردیا ہے کہ قانون سب کے لئے ہے، وسائل سب کے لئے ہیں، آگے بڑھنے کے لئے ہم نے کمزور پاکستانی کا بھی ساتھ دینا ہے، یہ ایک نہ صرف مثبت انتخابی اشتہار ہے بلکہ نوجوان نسل کو تبدیلی کیلئے متحرک کرنے کیلئے ایک پر کشش اور زبردست کوشش بھی ہے، اور یہ تبدیلی کیا ہے، مساوات ،انصاف، میرٹ، وقار اور کرپشن سے پاک پاکستان جو کسی کا دست نگر نہ ہو گڈلک پاکستان ۔
” ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“
تازہ ترین