• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو آئین کی روح کے مطابق چلانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت سے باز رہنا ہوگا۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارا ماضی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی جماعتوں کو بنانے، توڑنے، سول حکومتوں کو لانے اور رخصت کرنے جیسی سازشوں سے بھرا پڑا ہے، جس کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ مداخلت رہے گی، جمہوری نظام نہ صحیح طریقے سے چل سکتا ہے اور نہ ہی اُسے پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔

یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جن کی بنا پر پاکستان اور عوام کا نقصان ہو رہا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تمام مسائل کا حل یہی ہے، تو ایسا بھی نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا ہوگا، ہماری سول حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا، ہماری عدلیہ کو بھی اپنی ناکامیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا، ہماری پارلیمنٹ کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عوام کی نمائندہ ہے اور اُن کے حقوق کی صحیح محافظ بھی ہے۔

کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی مداخلت سے باز آ گئی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو یہ سوچ ٹھیک نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہی نہیں، سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا پڑے گا، اپنی غلطیوں کا تدارک کرنا پڑے گا، ورنہ اچھے کی اُمید نہ رکھیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کا رویہ دیکھ لیں، نواز شریف کی بات کر لیں، آصف علی زرداری کی سیاست اور طرز حکمرانی کا تجزیہ کر لیں، کس نے اِس ملک کو کوئی نظام دینے کی کوشش کی؟ اُن وعدوں اور اُن آئینی ذمہ داریوں کو پورا کیا جس کا تعلق عوام سے ہے اور جو آئینِ پاکستان میں درج ہیں؟

کوئی سڑکیں بنانے میں لگا رہا تو کسی کو آئینی ترامیم کرنے پر فخر ہے اور کوئی پناہ گاہیں بنا کر سمجھتا ہے جیسے اپنی ذمہ داری سے نبردآزما ہو گیا۔ اُن میں سے ایک ایک کو دیکھ لیں تو پتا چلے گا کہ اُنہوں نے نظام بنانے کے بجائے تباہ کئے اور سب سے اہم اِس ملک کا انتظامی ڈھانچہ، جس کی بنیاد بیوروکریسی ہوتی ہے، اُسے صرف اِس لئے تباہ و برباد کیا کہ سرکاری افسران جو عوام اور ریاست کی خدمت پرمامور ہوتے ہیں، اُنہیں اپنے ذاتی ملازم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کسی افسر نے میرٹ کی بات کی اور حکمران یا حکمران پارٹی کے سیاستدان یا کسی بااثر شخصیت کی خواہش کو پورا نہ کیا تو اُسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ساری کی ساری سرکاری مشینری جو ملک کو چلانے کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اُسے سیاست زدہ کر دیا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کا نام لے لیں، سب اِس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔

یہ سیاستدان، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن سول سروس، پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

نہ قانون، قاعدے کو دیکھتے ہیں نہ اِنہیں آئین کی کوئی فکر ہے۔ جمہوریت صرف یہ نہیں کہ عوام کے ووٹوں سے الیکشن جیت کر پانچ سال کے لئے ملک ٹھیکے پہ لے لیا اور جو جی میں آئے کریں، پیسہ لوٹیں یا پیسہ لوٹنے والوں (اگر وہ اُن کے قریب ہیں) کا تحفظ کریں، خراب طرز حکمرانی کے ریکارڈ توڑتے جائیں اور اِس پر کوئی شرمندگی بھی نہ ہو۔ سرکاری اداروں کو قانون کے تحت نہیں بلکہ اپنی مرضی اور خواہشوں کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اُنہیں تباہ و برباد کر دیں۔

اسٹیبلشمنٹ ججوں اور عدلیہ کو اپنی مرضی کے فیصلوں کے لئے استعمال کیا جائے تو ٹھیک لیکن اگر حکمران اور سیاست دان اپنی مرضی کے ججوں کو بھرتی کرنے اور اُن سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے جوڑ توڑ کریں، تو وہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ جب ججوں اور عدلیہ کی بات ہو رہی ہے تو میری رائے میں اگر پاکستان کی عدلیہ ٹھیک ہوتی، آزاد ہوتی تو بہت سی خرابیوں سے ہم بچ سکتے تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ بھی طاقتوروں کاآلہ کار ہی بنی رہی۔ نہ جلد انصاف دیا نہ ہی نظام اور اداروں کی تباہی روکنے میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کیا۔

جب کوئی ڈکٹیٹر آیا تو عدلیہ نے اُس کے غیر آئینی اقدام کو تحفظ دیا۔ حکومتوں اور حکمرانوں کے روز مرہ غیرقانونی اقدامات اور نظام کی تباہی روکنے کے بجائے عدلیہ صرف تماشا دیکھتی رہی۔ مثال کے طور پر سرکاری افسران اور سرکاری مشینری کو سیاست زدہ ہونے سے بچانے کے لئے کچھ فیصلہ دیے جن میں انیتا تراب کیس حالیہ برسوں میں سب سے اہم ہے لیکن اِس فیصلے کے نفاذ کی عدلیہ کو کوئی فکر نہیں۔ ہر روز سیاسی بنیادوں پر تبادلے ہو رہے ہیں، سرکاری افسروں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، آج اِدھر تو کل اُدھر لیکن انیتا تراب کیس کے باوجود یہ سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لیتا کیونکہ عدلیہ اپنے اِس فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں دلچسپی ہی نہیں لے رہی۔

اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کے نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام میرٹ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کو ترجیح دیتا ہے۔ پارلیمنٹ بھی ایک ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی منشا و مرضی کی تابع بن چکی ہے۔ اصولی طور پر پارلیمنٹ کو حکومت اور سرکاری محکموں پر ایک چیک کا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ حکومت اور سرکاری محکمے قانون کے مطابق اور عوام کی فلاح کے لئے کام کرتے رہیں لیکن ہمارے پارلیمنٹیرینز بھی اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں کی خواہشات کے غلام بن چکے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اگر لیڈر ناراض ہو گیا تو پھر وہ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب نہیں ہو سکتے۔

ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا یہاں کوئی رجحان ہی نہیں کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موروثی سیاست یعنی باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی ہی لیڈر بنے گا۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کے ٹھیک ہونے سے سب کچھ ٹھیک ہونے والا نہیں۔ سب کو اپنا آپ بدلنا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین