• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے کالم میں چند قرآنی آیات کا حوالہ دیا تھا جن میں اللہ رب العزّت نے صبر اور قناعت پر بہت زور دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ مسلمان ہر حالت میں صبر اور قناعت کریں اور قسمت کے بارے میں شکایت نہ کریں کہ قسمت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔ اِس موضوع پر شیخ سعدیؒ نے بہت پیارا مضمون لکھا ہے۔ پچھلے کالم میں کچھ حصّہ بیان کیا تھا، باقی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

(1)جب میرے روشن ستارے (مقدر) ہی نے میری مدد نہ کی تو یہ لوہے کی ٹوپی اور زرۂ بکتر بھلا میری کیا مدد کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب فتح کی کنجی ہاتھ میں نہ ہو تو بازو یا بازو کی قوت سے فتح کا دروازہ نہیں توڑا جا سکتا؟ (وہی مقدر کے حوالے سے بات کی ہے)۔ (وہاں صورتحال ایسی تھی کہ) ہاتھی جیسی قوت اور چیتے گرانے والوں کا ایک دستہ تھا۔ آدمیوں کے سر اور گھوڑوں کے سم لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے (آدمیوں نے لوہے کی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں) چنانچہ جیسے ہی ہم نے (دشمن) فوج کا غبار دیکھا، زرہ کا لباس پہنا، خود کی ٹوپی پہنی اور عربی گھوڑوں کو بادل کی طرح اُکسایا اور یوں تلواریں بارش کی طرح گرنے ؍چلنے لگیں۔ گھات سے دو لشکر آپس میں ٹکرائے۔ اِس سے کچھ ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان کو زمین پر گرادیا ہے۔ ہر طرف اولوں کی طرح تیر برسنے سے ہر ہر گوشے میں موت کا طوفان اُمنڈ آیا۔ جنگ آزما شیروں (دلیر فوجیوں) کے شکار کے لئے کند کے اژدھوں نے منھ کھول رکھے تھے۔ نیلے رنگ کی گرد سے زمین گویا آسمان بن گئی تھی جس میں تلوار گویا ستاروں کی مانند تھی۔ جب ہم نے دشمن کے سواروں کو پالیا یعنی ان سے ہمارا سامنا ہوگیا تو پیادہ ہو کر ڈھال کے ساتھ ڈھال ٹکراتے رہے۔ ہم نے تیروں اور نیزوں کے ساتھ بال تک چیر ڈالے لیکن چونکہ قسمت نے ساتھ نہ دیا، اس لئے مجبوراً وہاں سے منہ پھیر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب توفیق کے بازو ہی نے مدد نہ کی ہو تو آدمی کی کوشش کا پنجہ کیا زور دکھا سکتا ہے؟ جنگ کے سورمائوں (دلیروں) کی تلواریں کُند نہ تھیں لیکن ستاروں (مقدر) کی طرف سے انتقام کشی (انتقام لینا) سخت تھی (وہی مقدر کے ساتھ نہ دینے کی بات)۔ ہمارے لشکر میں ایک بھی سپاہی خون سے آلودہ چِلتہ (زرہ بکتر) کے سوا میدان جنگ سے باہر نہ آیا، اور ہم سب ایک ہی بالی (گچھا) میں اکٹھے سو دانوں کی طرح ہر گوشے میں ایک ایک دانے کی طرح گر پڑے، اور بزدلی کے باعث ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ہم زرہ بکتر رکھنے کے باوجود مچھلی کی مانند کانٹے میں پھنس گئے۔ ان لوگوں کے تیرریشم کے اندر نہ جاسکے جن کے بارے میں میں کہا کرتا تھا کہ وہ تیروں سے اہرن کو چھید دیں گے۔ بات یہی ہے کہ جب مقدر کے ستارے ہی نے ہم سے منہ پھیر لیا تھا تو اس صورت میں ڈھال قضا کے تیر کے آگے بیکار تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات سنو اور وہ یہ کہ مقدر کے بغیر سعی و کوشش کی حیثیت دو جو کے بھی برابر نہیں ہے۔ یعنی اگر قسمت ساتھ نہ دے تو انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ (یہاں کچھ اختلاف والی بات ہے، اسلئے کہ کوشش بہرصورت کرنی چاہئے پھر بات قسمت پر چھوڑنی چاہئے)۔ (2)(ایران کے شہر) اردبیل میں ایک فولادی پنجے والا یعنی بڑا طاقتور آدمی (پہلوان) تھا جو بیلچے میں سے تیر پار کردیتا تھا۔ ایک موقع پر ایک کمبل پوش اُس کے سامنے آیا جو بڑا لڑاکا اور جہان سوز (دنیا جلانے والا) تھا۔ وہ شخص بہرام گور کی طرح لڑنے پر آمادہ تھا۔ اس کے کندھے پر پرگورخر کے چمڑے کی کمند تھی۔ جب اِس اردبیلی نے اِس نمدہ پوش کو دیکھا تو اپنی کمان پر چلہ چڑھایا اور اِسے کانوں تک لے آیا پھر اُس نے خاص قسم کے پچاس تیر اُس پر مارے لیکن اُس نمدے سے ایک تیر بھی پار نہ گیا۔ وہ نمدہ پوش (ایران کے مشہور پہلوان) سام کی طرح اُس کے سامنے آیا اور اُسے حلقہ کمند میں لا کر اڑا لے گیا اور اپنی لشکرگاہ (چھائونی) میں لے گیا۔ اُس اردبیلی کے ہاتھ خونی چوروں کی طرح گردن سے باندھ دئیے۔ اردبیلی غیرت و شرم کے باعث رات بھر نہ سو سکا۔ صبح کے وقت خیمے کے نگہبان نے اس سے کہا ’’تو تو نیزے اور تیر سے لوہے کو چھیدا کرتا تھا آج تو اس نمدہ پوش کے ہاتھ میں قیدی کیسے بن گیا؟‘‘ میں نے سنا ہے کہ وہ خون کے آنسو بہاتا اور کہتا جاتا کہ ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ موت کے دن کون زندہ رہ سکتا ہے۔ اگرچہ میں ایک ایسا طاقتور ہوں کہ رستم جیسے پہلوان کو بھی نیزہ مارنے اور تلوار چلانے کے جنگی آداب سکھا سکتاہوں۔ بات یہ ہے کہ جب میرے مقدر کا بازو قوی تھا تو مجھے بیلچے کی موٹائی بھی نمد ہی نظر آیا کرتی تھی۔ اب جبکہ میرے پنجے میں مقدر کی بات نہیں رہی تو میرے تیر کے سامنے نمد بھی بیلچے سے کم نہیں ہے۔ موت کے دن نیزہ زرہ کو چیر ڈالتا ہے اور اگر موت نہ ہو یعنی ابھی انسان کی زندگی باقی ہو تو نیزہ قمیص سے بھی پار نہیں گزر سکتا۔ جب کسی کے تعاقب میں یا پیچھے موت کی تلوار ہو تو اگرچہ اس کی زرہ بکتر کی چند تہیں بھی ہوں ،پھر بھی وہ ایک طرح سے ننگا ہی ہوگا اور اس کے برعکس اگر مقدر ساتھ دینے والا ہے تو زمانہ مددگار ہوگا اور ننگے جسم کو بھی چھرے سے ہلاک نہ کیا جا سکے گا۔ نہ تو کوئی دانا اپنی سعی و کوشش سے اپنی جان بچا سکا اور نہ کوئی نادان ناگوار کھانا کھانے سے مرا۔ (3)ایک رات ایک کُرد سو نہ سکا۔ اُس علاقے میں ایک طبیب تھا۔ اُس نے کہا کہ ’’ایسا شخص جو اِس ہاتھ سے انگور کی بیل کے پتے کھائے گا یا کھاتا ہے، اگر وہ رات بھر زندہ رہے گا تو میرے لئے یہ تعجب کی بات ہوگی۔ اِس لئے کہ اگر تاتار کے تیر کی انی سینے میں لگے، تو وہ اِس کی نسبت بہتر ہوگی کہ سینے میں ناگوار غذا کا بوجھل پن ہو۔ گویا اگر ایک لقمے سے آنتیں پیچش کا شکار ہو جائیں تو نادان کی تمام عمر تلف ہو جائے گی۔ (4)کسی کسان کا گدھا ہلاک ہوگیا۔ اُس نے اس کا سر اُنگور کی بیل پر کھڑا کردیا۔ کسی جہاندیدہ بوڑھے کا اُدھر سے گزر ہوا تو اُس نے یہ صورتحال دیکھ کر جنگل کے پاسبان (کسان) سے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’اے جانِ پدر (باپ کی جان) تو یہ خیال مت کر کہ یہ گدھا تیرے کھیت کو بری نظروں سے بچالے گا، اِس لئے کہ وہ تو خود اپنے سر اور کان کو چھری سے نہیں بچا سکا، تاآنکہ بیچارہ زخمی ہوکر مر گیا‘‘۔ بھلا وہ بیچارہ طبیب جو خود کسی وقت بیماری سے مر جائے گا، کسی کی تکلیف کو کیونکر جان سکتا ہے؟

(بوستانِ سعدیؒ: ترجمہ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)

تازہ ترین