• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18اکتوبر ہمیں شہید بینظیر اور شہدائے کارساز کی یاد دلاتا ہے، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گوجرانوالہ اور کراچی میں تاریخ ساز جلسوں کا انعقاد کرکے اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِن جلسوں نے پاکستان کے عوام کی طرف سے دنیا کو جو پیغام دینا تھا، وہ پیغام چلا گیا ہے۔ اِن جلسوں سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں ایک سیاسی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر جلسہ عوام کی اُمنگوں اور سیاسی سوچ کا اظہار نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس سے کسی سیاسی تحریک کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کن معروضی حالات میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور جلسوں کا انعقاد کرنے والی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کے اتحاد کس طرح عوام کے سیاسی دھارے کا حصہ بنتے ہیں؟ پی ڈی ایم کے جلسے آج عوامی سیاسی دھارے کو تقویت پہنچا رہے ہیں، یہ بہت تبدیل شدہ حالات میں ہو رہے ہیں اور اِن کے جوہر میں ایک تحریک ہے۔ اِس تحریک سے پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں علیحدگی اختیار کریں گی تو غیرمتعلق ہو جائیں گی۔ جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور دھرنوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ لوگوں کی تعداد کے اعتبار سے بڑے اور چھوٹے بھی ہیں۔ ان کا انعقاد کرنے والی سیاسی قیادت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مسائل کا کس طرح ادراک رکھتی ہے؟ سیاسی جماعت، اِس کی قیادت اور اس کی جدوجہد عوام کی امنگوں کے ساتھ جڑی رہے تو وہ بڑی ہو جاتی ہے۔ جو عوام کے ساتھ جڑی نہ رہے، وہ چھوٹی اور غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت ماضی قریب تک بہت مقبول رہی کیونکہ اِس نے عوام کے مسائل کی بات کی لیکن تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ اس حکومت نے نہ صرف ان کے مسائل حل نہیں کئے بلکہ اِس نے مسائل پیدا کرنے والی طاقتوں کے خلاف اتنی مزاحمت بھی نہیں کی، جتنی دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے کی، موجودہ دور حکومت میں مہنگائی، بےروزگاری اور عوام کے دیگر مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اس اضافے کے جو اسباب بتا رہی ہے، عوام اس سے نہ صرف متفق نہیں بلکہ عوام کوحکمرانوں کا اب وہ بیانیہ بہت تکلیف دیتا ہے، جسے وہ قبل ازیں بہت پسند کرتے تھے۔ حکومت کی بعض پالیسیوں نے عوام کو یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ تحریک انصاف عوام کی اِن سیاسی فتوحات کو بھی غیرموثر بنانا چاہتی ہے، جو اُنہوں نے طویل قربانیوں سے حاصل کی تھیں۔ ایک اور سبب یہ ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد پہلی مرتبہ تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاست واپس آ رہی ہے۔ اِن حالات میں پی ڈی ایم کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ پاکستان کی پہلی سیاسی تحریک ہے جس میں مہنگائی، بےروزگاری، محنت کشوں کے مسائل اور نوجوانوں کے مسائل کھل کر سامنے رکھے گئے ہیں۔ وادیٔ سندھ (یعنی موجودہ پاکستان) کے کلچر کو قربانیوں، مزاحمت، دانش مندی اور اعلیٰ اقدار سے مالا مال کیا۔ اِس تحریک نے عوام کی مزاحمتی سیاست کو بڑھاوا دیا حالانکہ تحریک میں کبھی عوامی طاقت کا بڑا مظاہرہ نہیں ہوا۔ اُس کے برعکس پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک میں لوگوں نے شرکت کے ریکارڈ قائم کئے لیکن یہ تحریک پاکستان کی مزاحمتی سیاست کو عشروں پیچھے دھکیل گئی اور غیرسیاسی قوتوں کیلئے راستہ ہموار کیا، اِسی طرح تحریک انصاف نے بھی عوامی طاقت کے بڑے مظاہرے کئے لیکن اُن سے بھی غیرسیاسی قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی ایک عجیب تاریخی اتفاق ہے کہ پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد پاکستان میں قائم ہو چکا ہے۔ 1967ءمیں نوابزادہ نصراللہ خان نے بھی ایوب خان کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا تھا، جس میں ابتدائی طور پر پانچ سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ بعد میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس میں شامل ہو گئی تھیں۔ پھر پی ڈی ایم کا نام تبدیل کرکے پاکستان ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی (پی ڈی اے سی) رکھ دیا گیا تھا۔ اس سیاسی تحاد نے جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ قبل ازیں کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (سی اے پی) کے نام سے بھی ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنا تھا۔ اس نے پاکستان میں جمہوری اور مزاحمتی تحریک کو ضرور تقویت پہنچائی لیکن پی ڈی اے سی کو اس لئے کامیابی نصیب ہوئی تھی کہ اس وقت ایسے سیاسی حالات بن گئے تھے، جو آج پی ڈی ایم کی تحریک کے خلاف ہیں۔ جو لوگ سیاسی عوامل کو نہیں سمجھ سکتے، وہ سابقہ پی ڈی ایم (پی ڈی اے سی) کی تحریک میں کارفرما سیاسی عوامل کا سائنسی مطالعہ کریں۔ اُنہیں سمجھ آجائے گی کہ سیاسی عوامل کیا ہیں؟ کچھ حلقے اپنے پروپیگنڈے اور اپنے بیانیے کی قید میں ہیں، وہ نہیں سمجھ سکتے۔

تحریکوں کو روکنے کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے، وہ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف نے بھی کیا۔ یہ پہلی تحریک ہے، جس میں لوگوں کی جسمانی اور جذباتی شرکت 1967ءوالی پی ڈی ایم، جنرل ضیاء کے خلاف ایم آر ڈی اور مشرف کے خلاف اے آر ڈی کی تحریک سے کہیں زیادہ ہے۔

تازہ ترین