• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم نے جمعہ کے روز گوجرانوالہ میں بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا اور زیر نظر سطور کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں شہرِ قائد میں بھی سماں باندھ چکی ہونگی۔ ان جلسوں میں شرکا کی تعداد سے متعلق تو کوئی بات پورے وثوق سے نہیں کی جا سکتی مگر کوئی غیر جانبدار شخص ان جلسوں کو ناکام قرار دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک جلسوں کی کامیابی کا پیمانہ حکمرانوں کی گھبراہٹ اور تلملاہٹ ہوا کرتی ہے۔ اگر حکومتی ایوانوں میں ہلچل نہ ہو تو سمجھ لیں اپوزیشن میں دم خم نہیں ہے لیکن اگر حکومتی ترجمان اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں، بات بات پر بھڑک اُٹھیں اور مشتعل ہو جائیں تو اس کا مطلب ہے تیر نشانے پر لگا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جلسوں اور جلوسوں سے کیا ہوتا ہے؟ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں کتنے بڑے جلسے کئے، دھرنے دیے لیکن حکومت کو نہیں گرایا جا سکا۔ مسلم لیگ (ن)ہو، پیپلز پارٹی یا پھرجے یو آئی (ف)،یہ تینوں جماعتیں بڑے جلسے کر سکتی ہیں لیکن ان جلسوں سے حکومت کی صحت پر کیا فرق پڑے گا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جلسے بادِنما کا کردار ادا کرتے ہیں۔

ان جلسوں کی رونق بتاتی ہے کہ ہوا کا رُخ اور سمت کیا ہوگی؟یہ کس رفتار سے چلے گی ؟آیا کسی موقع پر ہوا بگولے اور پھر آندھی کی شکل اختیار کر پائے گی یا پھر یہ محض ہوا کا عارضی جھونکا ہی ہے؟جلسہ گاہیں سیاسی کارکنوں کیلئےتربیتی مراکز کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ملتان کا قلعہ کہنہ قاسم باغ، راولپنڈی کا لیاقت باغ، گوجرانوالہ کا جناح اسٹیڈیم، لاہور کا موچی دروازہ اور اقبال پارک، کراچی کا نشتر پارک اور لیاری کا ککری گرائونڈ سیاسی جلسوں اور گہما گہمی کے امین ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا تو 1967ءمیں لیاری کے ککری گرائونڈ میں جلسہ کرکے سندھ میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1911-12ءتک یہ علاقہ ندی کی گزر گاہ ہوا کرتا تھا۔ ندی نے رُخ تبدیل کرلیا تو اس گڑھے کومٹی سے بھر کر میدان بنادیا گیا۔ چونکہ یہاں کنکر بہت زیادہ ہوا کرتے تھے اس لئے اس کا نام ککری گرائونڈ پڑ گیا۔ ایوب خان نے یہ میدان کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سپرد کرنے کی کوشش کی تو لیاری کے لوگوں نے شدیدمزاحمت کی۔ نواب خیربخش مری، عطااللہ مینگل اور عبیداللہ سندھی سمیت کتنی ہی قد آور شخصیات یہا ں جلسے کر چکی ہیں۔ بینظیر بھٹو نے بھی 1986ءمیں وطن واپسی کے بعد ککری گرائونڈ میں بھرپور جلسہ کیا اور پھر آصف زرداری سے ان کی شادی کے بعد ولیمہ بھی یہیں ہوا۔ کراچی کا پٹیل پارک جسے سردار عبدالرب نشتر کی نسبت سے نشتر پارک کہا جاتا ہے، یہاں بھی بہت بڑے اور تاریخی جلسے ہوتے رہے ہیں۔ 1986میں الطاف حسین نے اسی جلسہ گاہ میں مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کا اعلان کیا۔ جلسے کس طرح ہوا کا رُخ متعین کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال 30اکتوبر2011ءکو پی ٹی آئی کا مینارپاکستان پر جلسہ تھا جس سے عمران خان کا رنگ ڈھنگ اورانداز و اطوار ہی بدل گئے۔ فرض کریں دو سال میں ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب نہ آتا۔ اقتصادی ترقی کی شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ بیشک نہ ہوتا مگر جی ڈی پی گروتھ ریٹ آج بھی کم وبیش اتنا ہوتا جتنا جولائی 2018ءسے پہلے تھا۔ افراطِ زر کا جن بوتل میں ہی بند ہوتا۔ ڈالر لگ بھگ 120 روپے میں دستیاب ہوتا۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بار بار اضافہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں معمولی رد وبدل تو ہوتا مگر 350فیصد تک اضافہ نہ ہوتا۔ گندم اور چینی کے بحران کو سر نہ اُٹھانے دیا جاتا۔ اناج بروقت درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا۔ آٹا جو قیامِ پاکستان کے بعد 1947سے 2018تک 40روپے فی کلو ہوا، دو سال میں اس کی قیمت دگنابڑھ کر 80روپے فی کلو نہ ہو جاتی۔ چینی جو 71سال کی گرانی کے بعد بڑھ کر 55روپے کلو ہوئی تھی، نئے پاکستان کے پہلے دو برس میں ہی ڈبل ہو کر 110روپے کلو تک نہ پہنچتی۔ دالیں، گھی، چاول اور دیگر غذائی اجناس کی قیمتیں طلب اور رسد کے اصول کے تحت سست روی سے بڑھتی رہتیں۔ ٹماٹر، لہسن، ادرک اور آلو کے نرخ آسمان سے باتیں نہ کر رہے ہوتے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے برسراقتدار آنے والے اس بات کو سیاسی وعدہ کہہ کر بیشک مُکر جاتے اور کوئی ایک ملازمت بھی نہ دی جاتی مگر جن لوگوں کا روزگار لگا ہوا تھا، ان کے پیٹ پر لات نہ ماری جاتی۔ پولیس کو غیرسیاسی محکمہ بنانے کا خواب بیشک شرمندہ تعبیر نہ ہوتا لیکن ماضی کے برعکس پسند نا پسند کے تحت اندھیر نگری نہ مچائی جاتی۔ پشاور ریپڈ بس ٹرانسپورٹ منصوبہ تاخیرکا شکار ہوا تو کیا، بڑے منصوبوں کی تکمیل میں دیر ہوجاتی ہےلیکن بی آر ٹی کی سروس شروع ہونے کے بعد بند کرنے کی نوبت نہ آتی۔ میرٹ کی باتیں تو محض سیاسی نعرہ ہوتی ہیں یہ بات سب جانتے ہیں لیکن اپنوں کو نوازتے وقت لیپا پوتی کی خاطر اہلیت اور قابلیت کو بھی سامنے رکھ لیا جاتا۔ دو چار بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کر لئے جاتے۔ پھکڑ پن کے بجائے کارکردگی پر توجہ دی جاتی، انقلاب برپا نہ ہوتا مگر ہلکی پھلکی مثبت تبدیلی آجاتی تو کیا پی ڈیم ایم کے پلیٹ فارم پر جمع اپوزیشن جماعتیں تحریک چلانے کی ہمت کر پاتیں؟ کیا تب بھی اپوزیشن کے جلسوں میں لوگوں کے جوش و خروش کا یہی عالم ہوتا؟

تازہ ترین