• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کا اصل موضوع بالکل غیر سیاسی اور بے حد سریلا ہے لیکن اس سے پہلے تھوڑی گپ شپ سیاسی حوالہ سے بھی ضروری ہے کہ جزوی قسم کے جنرل الیکشن جزوی قسم کے جوبن پر ہیں۔ تین صوبوں میں لاشیں اٹھ رہی ہیں، ایک صوبہ میں الیکشن کیمپین اٹھ رہی ہے اور وہ بھی صرف دو کے درمیان…ایک طرف تنہا عمران خان ہے تو دوسری طرف میاں برادران مع خاندان اور وہ بھی اس کیفیت کے ساتھ کہ……”عمران تے بلا دو جنے میں تے بھائیا کلے“
اصل محاورہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا یعنی”چورتے لاٹھی دو جنے میں تے بھائیا کلے“عمران فلم ”سرفروش“ کے ہیرو جیسا”چور ہے۔ جو شہزادی کی خواب گاہ سے چوری کرکے نکل رہا ہوتا ہے کہ اسے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ سب کچھ بھول کر فصیل پر ہی سجدہ ریز ہوجاتا ہے ۔ ادھر شہزادی بھی موذن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خواب گاہ سے باہر نکلتی ہے تو ایسے چور کو دیکھ حیران رہ جاتی ہے جو لوٹ کا مال سائیڈ پر رکھے نماز پڑھ رہا ہے۔ ہیرو نماز سے فارغ ہوتا ہے تو ہیروئن سہیل وڑائچ کی طرح اس ”کھلے تضاد“ کی نشاندہی کرتی ہے جس پر ہینڈسم ہیرو یہ تاریخی مکالمہ ادا کرتا ہے۔
”چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض “
میاں برادران اقتدار کو ذاتی قسم کا مال سمجھنے لگے تھے جواب انہیں”چوری“ ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے اس لئے وہ کبھی اناڑی کبھی کھلاڑی کبھی مداری جیسی اصطلاحیں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو باور کرارہے ہیں کہ عمران ناتجربہ کار ہے جبکہ یہ خود بہت تجربہ کار بلکہ”کھوچل“ ہیں تو یاد رہے کہ چند عشرہ قبل تک ان کا تجربہ بھی فونڈری تک ہی محدود تھا اور ویسے بھی جو”ناتجربہ کاری“ میں میاں برادران کو اس انجام تک لے آیا ہے اس سے آگے بھی لے جائے گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران اور میاں برادران ،دونوں ہی ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار ہیں۔ عمران کی زبان سے پھسل گیاکہ شیر پر ٹھپہ لگائیں۔ شہباز شریف زبان کی اس پھسلن پر عمران کی بھد اڑاتے اڑاتے یہ کہتے ہوئے خود بری طرح”جھپ“ کھاگئے کہ”اقتدار ملنے پر ہم بجلی کا ہی خاتمہ کردینگے“ حالانکہ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ہم لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردینگے، بہرحال ایک طرف اکیلا عمران دوسری طرف پورا میاں خاندان لیکن کھلاڑی اور شکاری کا”سٹینما“ایسا کہ پورے خاندان پر بھاری… ایک ایک دن میں چھ چھ جلسے اور پھر بھی”فریش فرام دی فارم“ (Fresh from the farm)یا یوں کہہ لیجئے کہAs Good as newادھر شہباز شریف کو داد نہ دینا بھی بخیلی ہو گی کہ مہلک ترین مرض سے مقابلہ کے بعد بھی الیکشن مہم کے محاذ پر پوری قوت سے قائم۔
سیاست کے بعد چلتے ہیں ایک بہت ہی سریلے موضوع کی طرف ۔مجھ جیسے نالائق کے دو بہت ہی لالق فائق اور قابل دوست ہیں۔ ایک ڈاکٹر مجاہد کامران وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی دوسرا طارق مجید قریشی جس کی ڈگریاں گنوانے لگوں تو پورا کالم ڈوب جائے۔ طارق بھی یونیورسٹی ہی میں ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی ہے اور ہم بچپن کے دوست ہیں۔ بمشکل گیارہ بارہ سال کے ہوں گے جب سے دوستی ہے۔ گزشتہ ہفتہ کی شام طارق کا فون آیا کہ اتوار کی شام وی سی ہاؤس پہنچ جاؤ۔ پوچھا”خیر ہے؟“ تو بتایا”ہم نے برصغیر کے عظیم گائیک محمد رفیع مرحوم کے سگے چھوٹے بھائی محمد صدیق صاحب کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا ہے“سبحان اللہ…کیا شام تھی، زندگی کی یادگار اور ناقابل فراموش شاموں میں سے ایک شام جس کی مہک اور لہک لحد میں بھی میرے ساتھ رہے گی۔ محمد صدیق صاحب اپنے بڑے بھائی محمد رفیع مرحوم سے تین چار سال چھوٹے ہیں، دونوں بھائیوں میں گہری مشابہت… میں مبہوت ہو کر محمد رفیع کے”ماں جائے“ کو محبت اور عقیدت سے دیکھ دیکھ سوچتا رہا کہ اگر رفیع صاحب زندہ ہوتے تو اس عمر تک آتے آتے ایسے ہی ہوگئے ہوتے۔ میری فرمائش پر صدیق صاحب نے بتایا کہ ان کی والدہ کا نام اللہ رکھی اور والد کا نام حاجی علی محمد تھا۔ تین بھائی تھے ،محمد دین، محمد رفیع، محمد صدیق، صدیق صاحب کی بچیاں انگلینڈ میں ہیں جہاں رفیع صاحب کے دو مرحوم بیٹوں کی اولادوں سے ان کا رابطہ ہے جبکہ رفیع صاحب کا واحد زندہ بیٹا شاہد رفیع جو ممبئی میں ہوتا ہے اس نے کبھی ان سے رابطہ نہیں کیا۔ صدیق صاحب ماشاء اللہ اسی سال پلس ہیں لیکن اس عمر میں بھی کیا گلا، کیا آواز پائی ہے۔ رفیع صاحب کا اک لازوال گیت ہے”او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے“صدیق صاحب نے سماں باندھ دیا، دونوں بھائیوں کی شکلیں اور بھولپن ہی ایک جیسا نہیں آواز یں بھی بیحد ملتی جلتی لیکن مقدر؟دو بوندیں ساون کیایک گرے ہے سیپی میں اور موتی بن جائے دو جی گندے جل میں گرکے اپنا آپ گنوا ئییوں محسوس ہوا جیسے اتوار کی سریلی شام سروں کے شہنشاہ محمد رفیع کی سنگت میں گزاری ہو۔ بدھ کی صبح یہ کالم سپرد قلم کرتے ہوئے بھی میں گزشتہ اتوار کی شام میں ہی جی رہا ہوں۔
تازہ ترین