• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک بزرگ بڑے جلالی طبیعت کے مالک تھے۔ کوئی دعویٰ کرتے تو یقین کامل کی حدوں کو چھوتے ایسے حتمی پن کے ساتھ کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔ حضرت کے بیشتر دعوے دلیل سے عاری ہوتے اور شکوک و شبہات پیدا کر دیتے تھے۔ ان کے جلالی مزاج سے شناسائی رکھنے والے اکثر کوئی سوال نہ اٹھاتے لیکن بعض اوقات کوئی نووارد پوچھ لیتا کہ حضرت یہ کیسے ممکن ہے۔ بزرگ ایک دو دلیلیں دیتے جن سے ان کے دعوے کا کھوکھلا پن کچھ اور نمایاں ہوجاتا۔ مطمئن نہ ہونے والا شخص جرح کے سے انداز میں تیسرا چوتھا سوال اٹھاتا تو وہ دلیل سازی کا دفتر ایک طرف رکھتے ہوئے دبنگ آواز میں گرجتے ”میں جو کہہ رہا ہوں“۔ یہ ایک ایسی حتمی اور شافی دلیل ہوتی کہ کرید کرنے والا شخص چپ سادھ لینے میں ہی عافیت خیال کرتا۔
”صاف چلی شفاف چلی“ کے قائد انقلاب کا جلالی انداز بھی ہمارے اسی روایتی بزرگ کے تیور لئے ہوئے ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں تو اس انداز میں جیسے آسمان سے تارے توڑ لانا اور ہتھیلی پہ سرسوں جمانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ ڈرون حملے بند کرانے کے حوالے سے ان کے دعووں پر مشتمل ایک طلسم ہوشربا تیار ہو سکتی ہے۔ ”ٹانک مارچ“ اس داستان کا ایک دلچسپ ورق ہے۔ اس وقت وہ تبدیلی اور انقلاب کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ میں نے کچھ دن قبل پوچھا تھا کہ اسٹیٹس کو کی حامل روایتی جماعتوں اور کپتان کی تحریک انصاف میں کیا فرق ہے؟ وہ مورپنکھ کہاں ہیں جن کے سبب اسے دیگر سیاسی چرند و پرند سے الگ کوئی مخلوق خیال کیا جائے۔ اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ البتہ گالیوں کی موسلادھار بارش جاری ہے۔ خان صاحب کے پاس، ہمارے جلالی بزرگ کی طرح کوئی دلیل نہیں، سو ان کی تان بھی اسی ”دلیل“ پر ٹوٹتی ہے ”میں جو کہہ کر رہا ہوں“۔
خان صاحب چاہتے ہیں کہ ہم ان کے حجرہ سیاست میں بیٹھے خورشید قصوری ، اعظم سواتی، افضل سندھو، علیم خان، رائے حسن نواز، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، منصور ٹمن، امین اسلم وغیرہ وغیرہ کو انقلاب عظیم کے سپوت خیال کریں۔ انہیں ”جنوں“ کی وہ درخشاں علامتیں قرار دیں جن سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے، اس بات پر ایمان لے آئیں کہ ان سب کی قباؤں سے فرشتوں کے جامہ ہائے تقدیس کی مہک آرہی ہے۔ کل تک یہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) یا مشرف کے سیاسی حرم کا حصہ تھے، تو گنہگار تھے اب پی ٹی آئی کے ”بہشتی دروازے“ سے گزر کر نہ صرف مصفّیٰ اور پاکیزہ ہوگئے بلکہ اسٹیٹس کو کی علامتوں کے بجائے یکایک تبدیلی اور انقلاب کے روشن استعارے بن گئے ہیں۔ اسی طرح انہیں یہ بھی ضد ہے کہ روایتی سیاسی خاندانوں کی جس نئی نسل کو انہوں نے گود لے لیا ہے ان میں سے ہر ایک ”ملت کے مقدر کا ستارا“ ہے اور اگر ایسی ہی آکاس بیلوں کو دوسری جماعتوں نے ٹکٹ دیئے ہیں تو وہ گردن زدنی ہیں۔ دلیل کیا ہے؟ صرف یہ کہ ”میں جو کہہ رہا ہوں“۔
اب آیئے ذرا ”تبدیلی اور انقلاب“ کے اس نعرے کا جائزہ لیتے ہیں جسے ”صاف چلی شفاف چلی“ کے ماتھے کا جھومر بنایا جارہا ہے۔ زمانہ حاضر و موجود میں ہمارے سامنے تبدیلی اور انقلاب کے دو نمایاں نمونے ہیں۔ دونوں کا تعلق برادر اسلامی ممالک سے ہے۔ ایک نمونہ انقلاب ایران کا ہے اور دوسرا نمونہ اس عظیم الشان تبدیلی کا جو ترکی میں آئی۔ ایران کے انقلاب کا سرچشمہ قم کی وہ درس گاہیں ہیں جہاں سے امام خمینی نے شہنشاہ ایران کی خود پرستی اور خدا فراموشی کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آواز پہاڑوں کی گونج بن کر پھیلتی چلی گئی۔ امام خمینی کو ملک چھوڑنا پڑا لیکن ان کی آواز کی گونج ایران کے در و بام لرزاتی رہی۔ پھر وہ دن آیا کہ پورا ایران سڑکوں پہ تھا۔ امریکہ کے کھونٹے سے بندھا آریہ مہر فرار ہورہا تھا اور امام خمینی کا طیارہ تہران کے ہوائی اڈے پر اتر رہا تھا۔ ترکی کا انقلاب مروجہ آئینی ضابطوں کے اندر رہتے ہوئے جمہوری جدوجہد ، سیاسی حرکیات اور انتخابی کامرانی کے بطن سے پھوٹا۔ طیب اردگان کی جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی“ اسی 2001ء میں بنی لیکن اس کے اجزائے ترکیبی کی جڑیں برسوں کی تاریخ میں پیوست تھیں۔ اسلامی تشخص کی حامل اس پارٹی نے کسی جلسے کی کوکھ سے جنم لیا نہ کھوکھلے نعروں کے پھریریے لہرائے۔ فوجی بالادستی کے خلاف مزاحمت کا سخت جاں ریکارڈ رکھنے والی سیاسی شخصیات طویل جدوجہد کے ذریعے اپنی جگہ بنا چکی تھیں۔ طیب اردگان نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے جو نام اور مقام پایا وہ ایک مکمل تاریخ ہے۔ اب یہ پارٹی گزشتہ ایک عشرے سے ترکی کے خد و خال سنوار رہی ہے اور دس برس قبل کا ترکی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
”صاف چلی شفاف چلی“ کے قائد انقلاب، نہ امام خمینی ہیں نہ طیب اردگان، انہیں پانچ سال اسمبلی کا رکن رہنے کا موقع ملا لیکن فردِ عمل خالی ہے۔ دوسری جماعتوں کے اگلے ہوئے حسن و خاشاک کو وہ ”صاحبان جنوں“ باور کراتے ہوئے تبدیلی اور انقلاب کے بلند بانگ دعووں میں مگن ہیں۔ ذرا سنئے۔
پہلا دعویٰ: کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کروں گا (اگرچہ وہ اپنی ایک سیٹ کے لئے لال حویلی کی کٹی پتنگ اور شاہ محمود قریشی اپنی ایک سیٹ کے لئے پیر صاحب پگارا سے اتحاد کرچکے ہیں)۔ خاں صاحب کے بقول وہ حکومت سازی کے لئے بھی مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی ، مولانا فضل الرحمن وغیرہ سے اتحاد نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں وفاق میں حکومت بنانے کے لئے کم از کم 172 سیٹیں درکار ہوں گی۔ کیا وہ یہ معرکہ سر کرلیں گے؟
دوسرا دعویٰ: فرض کیجئے کہ وہ 172سیٹیں جیت لیتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ یہ ہے کہ صدر زرداری سے حلف نہیں لیں گے۔ حلف کے بغیر وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر کیسے فائز ہوں گے؟
تیسرا دعویٰ: کسی ملک سے قرض نہیں لیں گے۔ امریکہ، برطانیہ اور جاپان سمیت کوئی ملک ایسا نہیں جو قرضے نہیں لیتا۔ مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ قرضوں کا استعمال درست ہو۔ ایک عام آدمی کو بھی چھوٹے موٹے کاروبار ، ٹریکٹر یا گھر کی تعمیر کے لئے قرض لینا پڑتا ہے۔ بھارت کا شمار تیزی سے ترقی کرتے ملکوں میں ہورہا ہے جس پر300/ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ قرضے نہ لے کر کیا وہ پاکستان کو صومالیہ اور افغانستان بنانے جارہے ہیں؟
چوتھا دعویٰ: 90دنوں میں کرپشن مُکا دوں گا۔ (پارٹی انتخابات اور ٹکٹوں کی بانٹ میں کرپشن کے بارے میں کیا خیال ہے)۔
پانچواں دعویٰ: پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کروں گا۔ (کیا انہوں نے تعلیم کے عالی مرتبت سسٹم چلانے والے خورشید قصوری سے بات کرلی ہے)۔
چھٹا دعویٰ: ڈرون طیارے مار گراؤں گا۔ (یقینا انہوں نے اپنے دو وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور خورشید محمود قصوری سے بات کرلی ہوگی اور جانتے ہوں گے کہ ایسی طفلانہ غلیل بازی کیا معنی رکھتی ہے؟)
اصل دعویٰ ”تبدیلی اور انقلاب“ کا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئی عام سا قانون بنانے کے لئے بھی پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری لازم ہے۔ خان صاحب کے پاس قومی اسمبلی کے 172/ارکان ہوں بھی تو سینیٹ میں ان کا ایک بھی رکن نہیں۔ یہ صورتحال مزید تین سال تک برقرار رہے گی۔ اگر وہ رشوت کی سزا دو سال سے بڑھا کر تین سال بھی کرنا چاہیں تو نہیں کرسکیں گے۔
انقلاب تو بہت بڑی چیز ہے۔ تبدیلی بھی اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ ”صاف چلی شفاف چلی“ کا المیہ تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی ساری سیٹیں لے جانے کے بعد بھی وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ پاکستان کے مروجہ قانونی ڈھانچے، تعلیم، صحت، انصاف اور فلاح و بہبود کے شعبوں، قومی معیشت، خارجہ پالیسی، نظام تعزیرات یا عمومی قومی معاملات کے حوالے سے کوئی عام سا بے ضرر قانون بھی منظور کراسکے۔ کہاں کا انقلاب اور کون سی تبدیلی؟
کپتان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ کوئی پوچھے کہ خان صاحب …”آپ تبدیلی کیسے لائیں گے؟ کس طرح جلوہ گر ہوگا آپ کا انقلاب“؟ تو وہ جلال میں آکر غضب ناک لہجے میں گرجیں گے ”میں جو کہہ رہا ہوں“ اور اس کے ساتھ ہی نونہالانِ انقلاب کی سنگ باری شروع ہوجائے گی۔
تازہ ترین