• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان انتخابی مرحلے سے صرف ایک ہفتہ دور کھڑا ہے، ہماری تاریخ میں ایک جمہوری حکومت سے دوسری تک پرامن انتقال اقتدار کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ جمہوریت کے حامی افراد ہمیشہ سے ایسے ہی عمل کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں جس میں ایک جماعت کے اقتدار کا خاتمہ اس کی حکومت کی مدت ختم ہونے پر ہواوراس کے بعد عوام کی مرضی اور منشا سے اگلی حکومت کا انتخاب ہو۔ لیکن پچھلے کچھ روز کے حالات و واقعات سے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماضی کی طرح اب کی بار بھی انتخابات میں کچھ غیرسیاسی عناصر کا اثرورسوخ ابھی بھی قائم رہے گا۔ پاکستان کی جمہوری حکومتوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ افواج پاکستان کی جانب سے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے سیاست میں کی جانے والی دخل اندازی تھا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ ریاستی ادارے انتخابات میں کس سیاسی جماعت یا نظریے کے لوگوں کی مدد کرتے رہے،ان کی جانب سے سیاست میں کئے جانے والے عمل دخل نے پاکستان میں جمہوری عمل کو بے حد کمزور کر دیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسّی اور نوے کی دہائی کے جمہوری ادوار میں سیاست دان عوام سے زیادہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رہتے تھے ۔ان کیلئے اقتدار کا راستہ عوام کی جانب سے پرچی پر لگائی جانے والی مہر کی بجائے جی ایچ کیو میں دی جانے والی تھپکی سے ہو کر گزرتا تھا، پھر ایسے کئی انتخابات بھی تو تھے جن میں کچھ حلقوں میں تو فرشتوں نے پولنگ سٹیشنز پر اس قدر کمال دکھایا کہ ایک ایک پولنگ بوتھ سے ہزاروں ووٹ ہی نکل آئے۔
اس بار الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ بوتھ پر ووٹر کی تصویر کے ساتھ ووٹر لسٹیں جاری کرنے کے اعلان پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، ایک زمانے میں سیاسی عمل میں حصہ دار ہونے کے باعث میں جانتا ہوں کہ اگرصرف جعلی ووٹ ڈالنے کے عمل کا تدارک کر لیا جائے توانتخابی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اور بھی بہت سے ایسے اعلانات کئے گئے جن کی مدد سے انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس بار الیکشن سے قبل افواج پاکستان کی جانب سے دیئے جانے والے اشارے یہ امید بڑھاتے ہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں افواج پاکستان اور اس کے ماتحت ادارے انتخابی عمل میں صرف اس حد تک شریک عمل ہوں گے جس کی ضرورت الیکشن کمیشن اور قائم مقام حکومتیں محسو س کریں گی۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پچھلے دنوں یوم شہدا کے موقع پر اپنی تقریر میں بھی الیکشن کے انعقاد او ر جمہوری عمل کے تسلسل کو خوش آئند قرار دیا۔ بارہ پیروں پر مشتمل ان کی تقریر میں سے تین پیرے جمہوریت اور الیکشن کے بارے میں تھے۔ جنرل کیانی نے جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل اسے صرف عوام کا جمہوری عمل میں بھرپور شرکت کرنا ہی ختم کر سکتا ہے، ان کے نزدیک عوامی منشا سے بننے والی منتخب حکومت کے لئے بہت سے ایسے مسائل ہوں گے جو حل طلب ہوں گے، ان مسائل میں جنرل کیانی کے نزدیک دہشت گردی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جنرل کیانی نے جدید جمہوری ریاستوں میں بھی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں سے سختی سے نبٹنے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسے افرادجو آئین پاکستان کو نہیں مانتے اور بندوق کے زور پر اپنی حکمرانی مسلط کرنا چاہتے ہیں،ان کے ساتھ سختی سے نبٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ایسے حالات میں ملک میں اگر ایسی جماعتیں ہوں جو اس جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہوں تو یہ بہت افسوس کی بات ہے کیونکہ اس سے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار افواج پاکستان اور دیگر دفاعی اداروں کے اہلکار تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ان انتخابات میں دہشت گردوں کی مداخلت کو روکنا نا ممکن نظر آ رہا ہے ۔۔۔ پچھلے تین سے چار ہفتے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو ایسی جماعتوں پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہو جو عوامی جمہوریت کی بڑی حامی ہیں اور آئین سے بالا تر کسی گروہ کو تسلیم کرنے یا من مانی کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ ان جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو پچھلے پانچ سال میں دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی حامی تھیں۔۔۔ الیکشن کے عمل کے شروع ہوتے ہی جس طریقے سے اے این پی کے امیدواروں کو خیبر پختونخوا میں نشانہ بنایا گیا، اس کے بعد شاید ہی کوئی اے این پی کا ایسا امیدوار ہو جو کھل کر اپنی انتخابی مہم چلا رہا ہو جبکہ ان کے مخالف امیدوار نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران مختلف علاقوں کے لوگوں سے مل رہے ہیں بلکہ بڑے بڑے جلسے بھی کئے جا رہے ہیں۔ اب یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے لئے ایک امتحان ہے۔۔۔ کیا الیکشن کمیشن اس موجودہ صورتحال میں یہ کہہ سکتا ہے کہ صاف اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنا لیا گیا ہے؟
یہ صرف اے این پی تک ہی محدود نہیں، سندھ میں ایم کیو ایم بھی دہشت گردوں کے عتاب کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ پچھلے چند روز میں اس کے امیدواروں کے انتخابی دفاتر پر متعدد بار حملے کئے جا چکے ہیں، ایم کیو ایم کی لیڈر شپ جو اپنے عوامی روابط کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے اب بڑی کارنر میٹنگز کرنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے۔ ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے الیکشن مہم کو عملاً ٹی وی اشتہارات تک محدود کر دینے کے پیچھے بھی دہشت گردی کے عوامل ہی کار فرما ہیں، ایسے میں جب ملک کی تین سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو اور ان جماعتوں کے لئے اس دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحد کرنے کے عمل کی سزا کے طور پر الیکشن میں حصہ لینا ہی ناممکن بنا دیا گیا ہو۔۔۔ کیا گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات صاف اور شفاف ہو پائیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس لئے دینا ہو گا کیونکہ اس کو ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا تھا ، اس کو پاکستان کی افواج، پاکستان کی عدلیہ اور پاکستان کی سول سو سائٹی کی مکمل ، غیر مشروط حمایت حاصل رہی۔ اس سوال کا جواب بھی دینا ہو گا کہ ایک ہی علاقے میں، ایک ہی روز ہونے والے واقعات کے حوالے سے کیا رپورٹس حاصل کی گئیں اورایسے واقعات پر قابو پانے کے لئے انہوں نے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کیا لائحہ عمل بنایا؟
تازہ ترین