• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے کہ دوسروں کی خوشحالی دیکھ کر جس کا دل دکھتا ہو۔ نہ دیکھا ہو تو مجھے دیکھئے۔ ابھی یورپ کے چھوٹے سے ملک ڈنمارک میں تقریباً ایک ہفتہ گزار کر آیا ہوں۔ ایک جیتا جاگتا، زندہ، امنگوں سے بھرا ملک جہاں خوشحالی فضا میں رنگ گھولتی ہے اور سانسوں میں خوشبو بھرتی ہے۔ ایک عجیب سا خیال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جو ملک ترقی کرچکے ہیں وہ اب چین سے بیٹھیں، لیکن نہیں، ایک دھن سوار ہے اور لگے پڑے ہیں کہ یہ بھی کرلیں اور وہ بھی کر ڈالیں۔ زمین کے اوپر چلنے والی ریل گاڑی ایک ایک کونے میں پہنچا رہی ہے لیکن اب دیوانہ وار زمین کے نیچے کھدائی کر رہے ہیں۔ ڈنمارک اور سوئیڈن کے درمیان سمندر حائل ہے۔ انہوں نے آدھے سمندر کے نیچے سرنگ نکال دی ہے اور باقی آدھے سمندر کے اوپر اتنا اونچا پُل باندھ دیا ہے کہ سمندری جہاز نیچے سے گردن جھکائے بغیر گزر جاتے ہیں۔ دن بھر میں طے ہونے والا یہ فاصلہ اب بیس پچیس منٹ میں نمٹ جاتا ہے اور ذرا دیر میں انسان خود کو سوئیڈن میں پاتا ہے جہاں اور زیادہ کرینیں چل رہی ہیں اور بُلڈوزر مٹی ڈھو رہے ہیں۔ ان دو ملکوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ جب تک آسمان کو نہیں چھولیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے اور آسمان ہے کہ آگے کو سرکتا جاتا ہے۔ مجھے خوشحال ملکوں سے زیادہ خوش باش لوگ پسند ہیں۔ کوپن ہیگن کا ذکر ہے، میں اور میری میزبان صدف مرزا ایک شاپنگ پلازہ کی بنچ پر بیٹھے کافی پی رہے تھے اور اپنی ہی باتوں پر خوش ہو کر ہنس رہے تھے کہ ایک صاحب، گورے چٹّے، ڈھلتی عمر، ذرا بھاری بھرکم، اپنی خالی ٹرالی دھکیلتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزرے اور ہمیں ہنستا دیکھ کر اپنی زبان میں بولے کہ کیا میں بھی تمہاری باتوں میں شریک ہو سکتا ہوں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر شخص ہر ایک کے حال میں شریک ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جہاں ملک کی ساری آبادی مقامی ٹرینوں میں شانے سے شانے ملا کر سفر کرتی ہو، قریب قریب ہر شخص سائیکل چلاتا ہو اور کسی کی عزّت میں کمی نہیں آتی وہاں ان کے درمیان فاصلے حائل نہیں۔ ایسے ملک کہاں ہوں گے جہاں بازاروں میں راہگیروں کی خاطر بورڈ لگے ہوں جن پر ایک مرد اور اس کا ہاتھ تھامے ہوئے بچّے کی تصویر بنی ہو اور لکھا کچھ نہ ہو۔ یہ صرف تنبیہ ہے کہ پُر ہجوم بازاروں میں بڑوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔کبھی سوچیں تو خیال ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں ہاتھ تھامنے کی کتنی اہمیت ہے۔ ڈنمارک کی آبادی ساٹھ لاکھ سے بھی ذرا کم ہے۔ اب یہ تصور کر کے حیرت ہوتی ہے کہ ملک میں سائیکلوں کی تعداد بھی بس اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ جا بجا سائیکلیں کھڑی کرنے کے ٹھکانے ہیں جہاں اتنی زیادہ سائیکلیں کھڑی ہیں کہ ایک دوسری پر گری پڑ رہی ہیں۔ ہر ریل گاڑی کا پہلا اور آخری ڈبّہ سائیکل والوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ وہ شخص جو دو پہیوں کی سواری پر بیٹھتا ہے کوئی حقیر فقیر نہیں۔ اس کے لئے بِلاتفریق ہر سڑک کے پہلو میں بائیسکل کی چھوٹی سڑک ضرور ہے جس پر سائیکل چلانے والوں کا اتنا زیادہ حق ہے کہ چوراہے پر وہ سڑک پار کررہے ہوں تو موٹر گاڑیوں کو رُک کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈنمارک کی سڑکوں کے بارے میں یہ طے ہے کہ ان پر پہلا حق راہگیروں کا ہے۔ قدم قدم پر پیدل چلنے والوں کو سڑک پار کرنے کی سہولت حاصل ہے جن کی خاطر چھوٹے چھوٹے بورڈ لگے ہیں جن پر لکھی ہوئی عبارت کا مطلب ہے کہ کار والے ٹھہریں اور صبرکریں۔ برطانیہ میں ایسے مقامات پر لال اور ہری بتّیوں کے بٹن دبانے پڑتے ہیں۔ ڈنمارک کا پیادہ کہیں زیادہ محترم ہے۔ اسے ہماری طرف انسانیت کا احترام کہتے ہیں۔ بس عمارت سازی کے معاملے میں عجب ذوق پایا ہے۔ پرانی عمارتیں تو ساری کی ساری شاہانہ طرز کی ہیں لیکن نئے زمانے کے لاکھوں کنبوں کیلئے جو ان گنت فلیٹ تعمیر کئے ہیں، بالکل یوں نظر آتے ہیں جیسے جوتے کے ڈبّے میں قطاردرقطار کھڑکیاں کاٹ دی ہوں۔ اوپر سے عمارت پر ہلکا یا گہرا سرمئی رنگ کر دیا ہے جسے کالا ہی کہئے۔ پرانی عمارتوں میں لِفٹ نہیں۔ چڑھتے جاتے ہیں اور ہمیں اور خود کو یہ کہہ کر سمجھاتے جاتے ہیں کہ زینہ چڑھنا صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے۔
بات کہاں سے شروع ہوکر کہاں نکل گئی۔ دوسروں کی ترقی دیکھ کر کسی کے دل پر کچھ بھی گزرے، میرے دل کو اس روز بڑا ملال ہوا جب میرے میزبانوں نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ کوپن ہیگن کا اسپتال ہے۔ عمارت شروع ہوئی، کار چلتی گئی مگر عمارت ختم نہیں ہوئی۔ ضرورت ہو تو پورا شہر اس میں سما جائے۔ میں محو حیرت تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ پورے شہر کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ ڈنمارک میں ایک چیز ہوا کی طرح مفت ہے، بالکل مفت۔ اور وہ ہے دوا علاج۔ میرے احباب نے بتایا اور مجھے اب بھی یقین نہیں کہ جس طرح پولیس والے گشت پر نکلتے ہیں، ڈنمارک میں ڈاکٹر گشت پر رہتے ہیں تاکہ ہنگامی حالت میں کہیں طلب کیا جائے تو گشت پر نکلا ہوا ڈاکٹر جھٹ وہاں پہنچ جائے۔ ہمارے ایک دوست اپنی بیوی کے ساتھ وہاں گئے اور دونوں بیمار پڑ گئے۔ کہتے ہیں کے اسپتال والوں نے انہیں ایک مہینے تک رکھا اور جب تک بالکل ٹھیک نہیں ہو گئے، جانے نہیں دیا۔ ایک صاحب کی ایک ٹانگ حادثے میں ضائع ہو گئی، حکومت نے ان کے لئے اتنا بندوبست کر دیا کہ باقی عمر چین سے کٹے گی۔ اب میرے دل دکھنے کا سبب نہ پوچھئے کہ مجھے جھنگ کے علاقے کا وہ اسپتال یاد آیا جس کی بوسیدہ عمارت میں نے ٹیلی ویژن پر دیکھی تھی اور جس کا ڈاکٹر غائب تھا، جس کا خاکروب مریضوں کو ٹیکے لگا رہا تھا اور جس کا چوکیدار رات کو اُس بیڈ پر سوتا ہے جس پر بچّے پیدا کرائے جاتے ہیں اور جس کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ آدھی رات کو کسی زچّہ کا ایمرجنسی کیس آتا ہو تو اونگھتا ہوا چوکیدار ذرا سا سرک کر اس کے لئے جگہ بنا دیتا ہوگا۔
کوپن ہیگن کی راہ میں اس روز کتنے ہی تعلیمی ادارے آئے۔کمسن بچوں کے اسکولوں سے لے کر صحت مند نوجوانوں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک چھوٹی بڑی عمارتیں خود اعلان کر رہی تھیں کہ وہاں علم کی فراوانی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ برطانیہ کی طرح ان کی فیسیں بھی بھاری ہوں گی۔ تب پتہ چلا کہ ڈنمارک میں طالب علموں سے کچھ لیا نہیں جاتا بلکہ انہیں کچھ دیا جاتا ہے۔اگر وہ اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ رہتے ہیں تو اچھی بھلی رقم، اور اگر خود اپنے طور پر رہتے ہوں تو اور زیادہ رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر اور سن کر پھر دل دکھا۔ پھر جھنگ کے علاقے شاہ جیونہ کا وہ اسکول یاد آیا جس کے کلاس روم میں مویشی بندھے ہوئے تھے اور جس کے بلیک بورڈ پہ لکھا ہوا منگولوں کے حملے کا احوال وقت کے ساتھ مدھم پڑتا جا رہا تھا۔ ٹیچر لاپتہ تھے اور بچّے غائب تھے جو گاؤں کی گلیوں میں اور وقت کے کوچوں میں زندگی کی چھڑی سے عمر کا پہیہ دوڑا رہے ہوں گے۔ دنیا کہاں سے کہاں نکلی چلی جارہی ہے۔ ہمیں خون آلود کفن میں لپٹے ہوئے اپنے عزیزوں کے لاشے دفن کرنے سے فرصت ملے تو کوئی اسکول کھولیں اور کہیں اسپتال بنائیں۔ ہماری بھی ریل گاڑیاں چلیں اور ہم بھی فضا کو کثافت اور آلودگی سے بچانے کے لئے چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر بائیسکل چلائیں۔ یورپ کے زیادہ تر ملکوں کی طرح ڈنمارک میں بھی رنگ رنگ اور بھانت بھانت کے غیر ملکی آکر بس گئے ہیں۔ بازاروں اور بڑے بڑے اسٹوروں میں سانولی سلونی رنگت کے مرد و زن کثرت سے نظر آنے لگے ہیں۔ ترکی سے تو خیر ریل گاڑی آتی ہو گی لہٰذا جرمنی کو فتح کرنے کے بعد یہ ترک اس بار ویانا کی طرف جانے کے بجائے ڈنمارک میں داخل ہو گئے ہیں اور پھلوں اور سبزیوں کے کاروبار کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ یہی حال عربوں کا ہے، پاکستانی بھی پیچھے نہیں اور ریستورانوں سے لے کر ٹریول ایجنسیوں تک بڑے بڑے کاروبار چلا رہے ہیں۔
ڈنمارک میں پاکستانیوں کی تعداد تیس ہزار سے کچھ کم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی برطانیہ تک جانے کی کوشش میں ڈنمارک تک پہنچ گئے تھے کہ برطانیہ نے اپنے کواڑ سختی سے بند کر دےئے اور یہ لوگ یہیں آباد ہو گئے۔ ان سب کے مبارک قدم آئے تو ہر علاقے میں مسجدیں اور مدرسے کھلنے شروع ہو گئے۔ کوپن ہیگن میں طاہرالقادری صاحب کے ادارے منہاج القرآن کا بہت بڑا مرکز اور اس کی شاخیں دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا کام کیونکر انجام پا رہا ہے۔ قادری صاحب کی لکھی ہوئی سیکڑوں کتابیں وہاں آراستہ تھیں۔
ڈنمارک اپنے اعلیٰ ادب کی وجہ سے بہت مشہور ہے، دنیا کے نامور مصنف اینڈرسن کو تو یہ قوم اپنا ہیرو مانتی ہے، اس کی لکھی ہوئی بچّوں کی کہانیوں پر بہت ناز کرتی ہے اور اس کی ایک کہانی کی جل پری کا مجسمہ بنا کر سمندر کے کنارے ایک چٹان پر یوں بٹھایا ہے جیسے ابھی ابھی پانی سے نکل کر دھوپ سینکنے بیٹھی ہے۔ میں جس دن کوپن ہیگن پہنچا اگلے روز ایک بڑے اردو جریدے ’سہارا ٹائمز‘ کے زیراہتمام علّامہ اقبال کے افکار کے موضوع پر سیمینار تھا۔ ترکی اور برطانیہ سے بھی دانشور بلائے گئے تھے۔ موسم بوجھل سا تھا اور ہوائیں برفانی سی۔ خیال تھا کہ ایسے میں شاعرِ مشرق کا فلسفہ سننے کون آئے گا مگر جی خوش ہوا جب نہ صرف ہال حاضرین سے بھر گیا بلکہ انہوں نے آخر تک بیٹھ کر ہر بات توجہ سے سنی۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس روز بھی دل دکھا۔ اقبال کے مذاکرے میں بعض سرکردہ احباب جانتے ہوئے بھی نہیں آئے۔ اس بار مجھے جھنگ اور شاہ جیونہ نہیں، پورا پاکستان یاد آیا۔ وہاں بھی شاعروں، ادیبوں اور پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان بٹوارے ہیں اور ایسے ہی فاصلے ہیں جو نہ ہوتے تو علم کا عَلم ذرا اور اونچا ہوجاتا مگر اُنہیں کیا؟
تازہ ترین