• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی گزشتہ65سالوں کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کریں تو دو سیاسی شخصیات کی روشن اور تابندہ تاریخ انہیں رہنما کے درجے پر فائز کرتی ہے کیونکہ ہر حکمران رہنما نہیں ہوتا ۔ رہنما وہی کہلاتا ہے جو اپنے اخلاص، سیاسی بصیرت ،آفاقی اخلاقی اقدار ، خدمتِ خلق اور تعمیری سوچ کے باعث عوام کے دِلوں میں گھر کرلیتا ہے۔خیر کی خواہش اور اُس کے حصول کے لئے جدوجہد رہنما کی ذات میں اس طرح کرشماتی طلسم پیدا کردیتی ہے کہ لوگ اُس کی محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں۔ بھٹو اور نوازشریف بھی اسی محبت اور احترام کے درجے پر فائز لیڈر ہیں۔ حالات کا جبر دیکھئے دونوں کو آمریت ہی سیاست کی ڈگر پر لائی اور اسٹیبلشمنٹ نے لگے بندھے رستوں اور اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے گملے میں سجے پودے کی طرح ایک حد تک نشوونما کی آزادی دی مگر دونوں نے اس مضبوطی سے دھرتی اور دھرتی کے لوگوں سے رابطہ استوار کیا کہ ان کی جڑیں زمین کے اندر دور تک سرائیت کرگئیں ۔
نوازشریف کی سیاسی جدوجہد مسلسل مثبت اور ترقی پسندی کی طرف پیشرفت کا سفر ہے۔ ضیاء الحق کے مینوفیکچرڈ اسلام ،نظریہٴ پاکستان اور وطن پرستی کے اندر سے خالی کیپسول سے سفر آغاز کرنے والے نوازشریف پر بہت جلد اصل صورتحال واضح ہونی شروع ہو گئی اور اس نے حالات و واقعات کو اپنی فراست سے پرکھنا شروع کیا۔13/اپریل1993ء کو ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کر کے اپنی سیاسی اور فکری سمت کا تعین کر لیا۔ ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کے حوالے سے جنرل آصف نواز اور عراق میں فوج بھیجنے کے حوالے سے اسلم بیگ سے اختلاف کر کے اپنی آزاد اور قومی مفاد کی سوچ کی عکاسی کی اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ اور اُن کے درمیان اصولوں کی سرد جنگ اندر ہی اندر شدت اختیار کرتی رہی اگرچہ نوازشریف کی توجہ معاشی اصلاحات کی طرف تھی کیونکہ اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکار کی تحویل اور قبضے میں تھے جبکہ نوازشریف کا وژن یہ تھا کہ جب تک معیشت آزاد نہ ہو ترقی ممکن نہیں ہوتی مگر پرانے اور بوسیدہ اصولوں کی پیروکار اسٹیبلشمنٹ کیلئے ان افکارِتازہ کو خوش آمدید کہنا مشکل تھا جبکہ دنیا نے نوازشریف کے اس اکنامک ماڈل کو بہت سراہا جس نے ملک کو ترقی کے تیز تر ٹریک پر ڈال دیا۔ بھارت نے اسے کاپی کر کے اس کے کامیاب اور کارآمد ہونے کا ثبوت دیا۔ جدید مواصلاتی نظام قائم ہوا، کرنسی مضبوط ہوئی اور پاکستان آپٹیکل فائبر کی وجہ سے جدید دنیا کا حصہ بن گیا۔ مندرجہ بالا تمام باتیں اپنی جگہ اہم کہ معیشت کی ترقی کے بغیر ملک خوشحالی کے رستے پر سفر کا آغاز نہیں کرسکتا۔ مگر میرے لئے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نوازشریف مکمل طور پر جمہوریت کے ہمنوا بن گئے اور جمہوری قدروں کی سربلندی کے لئے انہوں نے اپنی ذات، سیاسی جماعت اور رفقائے کار کے حوالے سے ہر قسم کے مفاد کو بالائے طاق رکھ دیا جس کے باعث اجتماعی شعور سے اُن کا رابطہ مستحکم ہوتا گیا اور وہ اس کی آواز اور اظہار بنتے گئے۔ عوام کی خوشحالی طبقاتی مساوات معاشی آزادی ، فرد کے بنیادی حقوق ، عورتوں کی تعلیم اور ترقی، مذہبی رواداری اور بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حوالے سے اپنے مثبت نظریات کے باعث لبرل ، ترقی پسند سوچ کے حامل دانشوروں کا اعتماد حاصل کرنے میں یوں کامیاب ہوئے کہ اب الیکشن میں دائیں اور بائیں کے بجائے کارکردگی ووٹ کا فیصلہ کرتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں بھی ن لیگ نے مذہبی اور علاقائی جماعتوں سے اتحاد نہ کر کے ایک اور اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن وہ واحد جماعت ہے جو تنہا اپنی کارگردگی کے بل بوتے پر کھڑی ہے اور اعمال کے پلڑے میں اس کے پاس اچھی کارکردگی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی واضح حکمت عملی بھی موجود ہے۔ آج نوازشریف ریاضت کے پل صراط پر طویل سفر کے بعد ایک معاملہ فہم ، زیرک اور عالمی سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والا لیڈر بن چکا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جمہوری قدروں کی ترویج اور جمہوریت کے فروغ کے لئے نواز شریف نے جو کردار ادا کیا اس کے باعث وہ روشنی کا استعارہ اور عوامی طاقت کا علمبردار بن کر سامنے آیا ہے۔ اس نے جمہوریت دُشمن کسی منصوبے کا حصہ یا کسی خفیہ ہاتھ کا آلہٴ کار بننے اور کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنی دانشمندی سے جمہوری نظام کو بھرپور مدد فراہم کی۔ نوازشریف کی اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے کے آج آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو جمہوریت کے سورج کی طاقتور کرنوں نے ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کر دیا ہے یہ ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ جب اشفاق پرویز کیانی نے جمہوریت کو ترقی کا ضامن قرار دیا ہے۔ اس وقت نوازشریف ہی وہ واحد رہنما ہے جو اپنے تجربے، سیاسی بصیرت اور معاشی لائحہ عمل کے ذریعے ملک کو درپیش معاشی، معاشرتی اور سماجی مشکلات سے نکال کر ترقی کی شاہرہ پر آگے لے کر جاسکتا ہے ۔ 18کروڑ لوگوں کی تقدیر جذباتی نعروں سے نہیں صرف تدبیر سے بدلی جا سکتی ہے۔ نئے لوگوں کو ضرور آنا چاہئے اور سیکھنا بھی چاہئے مگر قوم کے مفاد میں نوازشریف کو ایک پورا موقع ملنا چاہئے کہ موجودہ صورتحال کی ابتری کو بہتری میں بدلنے کے لئے اُس سے بہتر اور قد آور رہنما کوئی اور نہیں ہے۔
تازہ ترین