• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
 میں ’’علم‘‘ ہوں، مجھے تلاش کیجئے، مجھے حاصل کرنے کے بعد بھی تشنگی رکھیے، یعنی ایسا علم کہ جس کی پیاس بجھ کر نہ دے۔ مجھے عزت دےکر عزت ماب کہیئے۔ مجھے صرف کتابوں میں مت ڈھونڈیئے زندگی کے مسائل میں عبرت کیلئے ڈھونڈیئے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں میں تلاش کیجئے، بدلتے حالات میں جو کچھ بدلا محسوس ہو تو علم ہے۔ مجھے گلستان میں ڈھونڈیئے قدرت کی متاعی بھی علم دیتی نظر آئے گی، مجھے حاصل کرنے کو ایسا انداز اپنایئے کہ جیسے میں خواب مسلسل ہوں یا پھر کوئی سراب ہوں جس کے پیچھے بھاگتے رہو اور علم کے راستے ناپتے رہو، ادنی و اعلیٰ، امیر و فقیر، چھوٹا بڑا، بزرگ جوان، عورت و مرد صرف مجھے ہی پانے کی تگ و دو میں رہو، میں علم ہوں تو کائنات کے زرے زرے میں ہوں پوشیدہ بھی اور ظاہر بھی، ہوائوں میں ہوں تو پرندوں کی آوازوں میں بھی ہوں، بحرسکوت میں ہوں تو دریا کی طغیانی میں بھی ہوں، انسان کو دنیا میں خدا نے کائنات کے رمز جاننے، اس کی جستجو اور بہت سے راز کی تلاش کیلئے بھی پیدا کیا ہے۔ عبادت کیلئے بھی پیدا کیا تو وہاں بھی علم کے خزانے ہی کھلتے نظر آئیں گے۔ ’’علم‘‘، دانش ہے، واقفیت ہے، آگاہی ہے، دانائی ہے تو دانشمند ہونا کسی کو بھی برا نہیں لگتا۔ ہر چیز سے واقفیت کا جنون بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے، آگاہی اور واقفیت ایک ہی علم کی دو شاخیں ہیں کہ جسے وہ حاصل کرکے اس پر عبور پاکر وہ دانشمند، ایک عالم، ایک معتبر حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ یعنی تمام علوم پاکے عالم ہو جائو، یوں تو علم کی کئی اقسام ہیں، علم طب ہے کہ دوائوں کی افادیت اور اس سے متعلق تمام آگاہی، پھر اسی سے متعلق علم الابدان اور علم افعال الاعضاء، یہ وہ علم ہیں جو انسانی اور جانوروں کے اعضاء پر بحث کریں، اعضاء کی بناوٹ اور ان کے افعال کا علم، ان علوم کا تذکرہ یوں بھی ضروری ہے کہ حضرت انسان کی تخلیق کے بعد ان کی فتنہ و فساد کی، شرپسندی اور جنگ و جھگڑوں کی بدولت نتائج زخم و پیوند کاری کی صورت میں نکلتے ہوں تو ان علوم کا ماہر انسانی صحت کیلئے ان علوم سے آگہی حاصل کرتا ہے کہ دنیا میں انسانی مرمت، جراحت اور پیوند کاری لازمی ہے، علم حاصل کرنے کا شوق ہر انسان میں ہوتا ہے قدرت کا ودیعت کردہ جذبہ کہ لگن اور جستجو، کھوج اور تلاش آپ کو آگہی کے راستے پر ڈالے تو وہ علم ہی کا ذریعہ ہے، جی چاہتا ہے میرا کہ ایک لمبی سانس کھینچ کر دنیا بھر کا علم اپنے اندر سمو لوں، علم سیکھتے رہنے کا شوق خواتین میں زیادہ ہوتا ہے یوں بھی تخلیق اور غور و فکر کا وقت خواتین کے پاس زیادہ ہوتا ہے،ماں بننے کا اعزاز بھی خواتین کو حاصل ہے تو تخلیق کے مرحلے سے گزرتی ہے وہاں سے لے کر بچے کی تربیت تک وہ سیکھنے کے عمل ہی میں رہتی ہے۔ مگر یہ ہوتا رہا ہے روز اول سے لے کر تاحال خواتین کی حیثیت گھر کی چار دیواری تک محدود ہے علم کے راستے اس پر تنگ ہیں۔ ’’پڑھ لکھ کر کیا کروگی رہنا تو گھر گرہستی میں ہے‘‘، جیسے نعرے خواتین کیلئے مخصوص ہوگئے ہیں۔ عورت اگر بادشاہوں کی غلام و کنیز بن کر خدمت کرے تو جائز ہے۔ ناچ گانے والی بن کر تفریح کرے تو جائز ہے، جانوروں کی دیکھ بھال کرے وہ بھی ٹھیک ہے، کھیتوں میں فصلیں کاٹتی نظر آئے تو بھی قبول ہے، اپنے بچے کو پشت پر باندھ کر گندم کی بوریاں اٹھانے کی مزدوری کرے تو اچھی، حمل سے ہو یا بچہ پشت پر باندھ کر اینٹیں بجری کوٹ رہی ہو یا اینٹوں کا بوجھ اٹھائے سارا دن گزار دے تو بھی بہت اچھی ہے کہ گھر چلا رہی ہے محنت مزدوری سے مگر تعلیم حاصل کرکے اگر وہ کوئی نرس، استانی یا ڈاکٹر بن جائے تو گناہ اور اس سے بھی بڑا گناہ اگر وہ کسی آفس میں کام کرے تو، عورت تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو خطرے کی بو سے مشروط کردیا جاتا ہے اور جب وہ تعلیم حاصل کرکے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے لگے تو اسے باغی کہا جاتا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ تعلیم اور صرف تعلیم کا شوق رکھئے۔ ہمیں تعلیم حاصل کرنے کا اتنا شوق ہے کہ ہم حالت تعلیم ہی میں رہتے ہیں، یعنی ہمیں لفظ ’’تعلیم یافتہ‘‘ سے تھوڑا اختلاف ہے حالت علم میں رہنے والے کبھی خود کو تعلیم یافتہ نہیں کہلا سکتے جو لوگ سیکھنے، سمجھنے اور علم سے رغبت رکھتے ہیں وہ کہیں بھی اور کسی بھی حالت میں پڑھتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ برصغیر میں جب انگریزوں نے پوری کوشش کی کہ برصغیر کے لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے کہ وہ باشعور ہوکر دنیاوی ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکیں اور اسکے لئے انہوں نے ایشیائی انداز تعلیم اور وہان بولے جانے والی زبانوں کا مذاق اڑایا، پھر اپنا انداز تعلیم رائج کرنا چاہا یعنی مشنری اسکولوں کی بنیاد پڑی تو کچھ تنگ نظر احباب کو اس سے زبردست اختلاف ہوا مگر کچھ کشادہ ذہن امیر و غریب والدین نے اسی تعلیم کو اپنے بچوں کے شعور و علم اور مستقبل کی بہتری کیلئے سودمند جانا تبھی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ بہت سی ہماری بزرگ خواتین نانی اور دادی کی عمر کی عموماً انگلش بولتی ملیں گی یہ ایدھی سینٹر میں اولاد کے ہاتھوں بے قدر ہونے والی خواتین سے لیکر امیر گھرانوں تک میں انگلش تعلیم کے ذریعے بولتی پائی جائیں گی پھر پاکستان بننے کے بعد اردو میڈیم اسکول رواج پائے تو انکے بچوں نے اردو میں تعلیم حاصل کی اور مائیں دیکھیں کانونٹ اور کینئرڈ کالج کی پڑھی ہوئیں اور بچے اردو میڈیم کے مگر اب اردو میڈیم والوں کے بچے پھر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہم نے ذکر کیا کہ تعلیم کے ذریعے انگلش بولنے سے مراد کہ ہر چیز علم کے ذریعے سیکھی جائے تو چاہے وہ زبان ہو یا علم و شعور تو اس کی دھاک علیحدہ ہی بیٹھتی ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو علمی شعور سے بالاتر ہوکر صرف دیکھا دیکھی انگریزی سیکھ لیتے ہیں مگر لکھنے پڑھنے میں ’’صم بکم‘‘ ہوجاتے ہیں یعنی علم زیرو۔ تو جناب پڑھئے اور زیرتعلیم رہئے، اگر کوئی پوچھے آپ کی تعلیم؟ تو کہئے، زیر تعلیم، سند اور سرٹیفیکٹ کیلئے نہیں وہ تو کہیں الماریوں میں بند ہوجاتے ہیں، کتابیں پڑھنے والے ہمیشہ سکون میں رہتے ہیں جیسے علم سمندر ہو اور دماغ کوزہ کہ جس میں علم بھرتے جائو، ہر قسم کا علم۔ علم طب پڑھیئے، علم اخلاق پڑھیئے، علم المعیشت پڑھیئے، علم النفس پڑھیئے، علم الہیٰ پڑھیئے، علم القین پڑھیئے، علم حیوانات بھی پڑھیئے کہ شعور حاصل ہو۔
تازہ ترین