ٹیکساس ( راجہ زاہد اختر خانزادہ، نمائندہ جنگ/ جیو) امریکی صدارتی انتخاب ،ڈیمو کریٹک امیدوار جو بائیڈن کے جیتنے کے امکانات87فیصد ہو گئے،مستقبل میں امریکی صدر کون ہو گا،9ریاستیں بیٹل گرائونڈ،کانٹے کا مقابلہ متوقع،40فیصد امریکی پہلے سے ووٹ ڈال چکے،پہلے صدارتی مباحثہ میں شکست اور دوسرے مباحثہ سے انکار کے باعث ٹرمپ کو آخری موقع،جن ریاستوں میں صدر ٹرمپ2016ء میں جیت سے ہمکنار ہوئے وہی ریاستیں اب مخالف ہو گئیں،ری پبلکن پارٹی کو اپنے ہی گڑھ ریاست ٹیکساس میں سخت مشکلات کا سامنا،ریاست ٹیکساس کے ری پبلکن سینٹر نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے لاتعلقی ظاہر دی۔ تفصیلات ےکےمطابق امریکی صدارتی انتخابات آئندہ ماہ تین نومبر کو منعقد ہونگےجبکہ اس کیلئے امریکہ کی50ریاستوں میں قبل از وقت ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے، ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کو ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کی جانب سے چیلنج ہے جو کہ صدر اوبا کے دور میں امریکی نائب صدر رہ چکے ہیں جبکہ بائیڈن1970ء سے مسلسل امریکی سیاست میں حصہ لیتے چلے آ رہے ہیں اوروہ سینیٹ سمیت کئی اہم عہدوں پر اپنے علاقہ سے عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں، صدارتی انتخابات کے دن جوں جوں قریب آ رہے ہیں، تو مختلف اعداد وشمار جمع کرنے والے سروے رپورٹس میں ان دونوں امیدواروں کی پوزیشن واضح ہوتی چلی جا رہی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت جن ریاستوں میں گھمسان کا مقابلہ متوقع ہے اس میں امریکا کی نو ریاستیں ایسی بتائی جا رہی ہیں جو کہ آئندہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے بیٹل گراؤنڈ تصور کی جا رہی ہیں چونکہ امریکی انتخابات کا فیصلہ الیکٹرول کالج کے نظام کے تحت ہوتا ہے، اس لئے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ جس امیدوار نے زیادہ ووٹ لئے ہوں وہی جیت سے بھی ہمکنار ہو 2016ء کے انتخابات میں امریکا کی تمام ریاستوں کے اگر ووٹ جمع کئے جائیں تو اس وقت ہیلری کلنٹن نے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلہ میں30لاکھ سے زائد ووٹ زیادہ حاصل کئے تھے مگر چونکہ وہ الیکٹرول کالیج کے تحت مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکیں اس لیے ہیلری صدر ٹرمپ سے مقابلے میں شکست سے ہمکنار ہو ئیں، اس وقت سروے رپورٹ کے جو اعدادوشمار سامنے آ رہے ہیں، اس کے مطابق یہی کچھ صورتحال اب ٹرمپ کے ساتھ نظر آرہی ہے،مختلف سروے رپورٹس کے مطابق امریکا کی 9ایسی ریاستیں ہیں جہاں پر ان دونوں امیدواروں کے درمیان گھمسام کا رن پڑنے والا ہے، ان ریاستوں میں مشی گن، وسکونس، آئیووا، اوہائیو، پینسلونیا، نارتھ کیرولانا، جارجیا، فلوریڈا اور ایری زونا کی ریاستیں شامل ہیں، جن کے کل الیکٹرول کالج ووٹ کی تعداد125ہے، امریکی صدارتی امیدوار کو وائٹ ہائوس پہنچنے کیلئے کل270الیکٹرول کالج کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اعداد وشمار کے مطابق یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں پر صدر ٹرمپ نے2016ء کے انتخابات میں ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی مگر اب یہ ریاستیں ان کے حریف امیدوار جوبائیڈن کی جانب جُھکی نظر آ رہی ہیں اور ان ریاستوں میں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے،کورونا وائرس کے سبب اس وقت بے یقینی کی صورتحال ہے لیکن جو تازہ ترین پول سامنے آ رہے ہیں اس کے مطابق یہ نو ریاستیں مستقبل میں امریکہ کے صدربنانے میں اہم کردار ادا کریں گی، ریاست ٹیکساس جس کے ووٹ38ہیں اس میں اس وقت تک ٹرمپ کو برتری حاصل ہے لیکن نئے ووٹروں کے اندراج کے باعث یہاں بھی صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے ری پبلکن پارٹی کا انتخاب لڑنے والے سینیٹر نے بھی اپنے آپ کو ٹرمپ کی سیاست اور خیالات سے دور رکھنے کا حال ہی میں اعلان کرتے ہوئے کہاکہ بعض معاملات پر ان کے خیالات ٹرمپ سے نہیں ملتے ، اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست ٹیکساس جسکو ری پبلکن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے وہاں بھی ری پبلکن پارٹی امیدواروں اپنا انتخاب جیتنے کیلئے ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں چاہتے کیونکہ یہاں ٹرمپ کی پالیسیوں کو اپنانے کی صورت میں انکو اپنا جیتنا مشکل نظر آ رہا ہے، اس وقت بھی اعداد وشمار کے مطابق اس ریاست میں ٹرمپ کو49.2فیصد اور جوبائیڈن کو44.8فیصدعوام کی حمایت حاصل ہے ،تاہم رائے شماری کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ یہ رائے شمار سو فیصدہی درست ثابت ہوں ، اس وقت رائے شمار ی کے مطابق ڈیمو کریٹک امیدوار جوبائیڈن51فیصد اور ٹرمپ42فیصد عدد حاصل کئے ہوئے ہیں، اس طرح جوبائیڈن اس دوڑ میں ان سے کافی آگے ہیں، انتخابی تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ شاید ٹرمپ یہ انتخاب ہار جائیں۔