• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر انتخابی مشق حسب معمول چلے تو پھر بعد از انتخابات ایک نئی منتخب حکومت معرض وجود میں آئے گی جسے بے شمار معاشی مسئلوں کا سامنا رہے گا جن کا حل تلاش کرنا نئی حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ گزشتہ حکومت کی پانچ سالہ بدترین انتظامی کارکردگی کے باعث معیشت کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ ملک کے کلیدی ادارے جیسے اسٹیٹ بنک، وزارت خزانہ، پلاننگ کمیشن وغیرہ بری طرح متاثر ہوئے۔ نئی حکومت کو ایک ایسی معیشت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے جس کی پانچ سالہ اوسط پیداوار کی شرح 3فیصد رہی ہے۔ سابقہ حکومت کی جانب سے ہر سال نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہ کرنے سے بے روزگاری کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ سرمایہ کاری کی شرح 50سال کی کم ترین سطح پر آگئی جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا 12.5فیصدہے، موجودہ شرح سرمایہ کاری 2007-08ء کی نسبت محض دس فیصد کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔
اقتصادی بدانتظامی غیر معمولی صورتحال نہیں بلکہ سابقہ حکومت کا ضابطہ رہی ہے۔ بجٹ خسارہ پچھلے4برسوں میں7فیصد رہا ہے جبکہ موجودہ مالی سال یہ خسارہ ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 8.5فیصد رہا ہے۔ تبدریج مالی خسارے کے ساتھ شرح مبادلہ میں تنزلی سے حکومتی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔ نتیجتاً سود کی مد میں ادائیگی کی شرح ٹیکس محصولات کے50فیصد سے زائد تک بڑھ گئی، جس سے عوامی مفاد کی اسکیموں اور انفرااسٹرکچر پر خرچ کرنے کیلئے انتہائی کم رقم باقی بچی۔ توانائی بحران کے نتیجے میں ملکی کی مجموعی پیداوار کو کم از کم 2.5-3فیصد تک کمی کا سامنا ہے، بحران پر قابو پائے بغیر معاشی ترقی نئی حکومت کیلئے محض خواب ہی رہ جائے گا۔ قومی ادارے تباہ حالی کا شکار ہیں جو ٹیکس گزاروں کے سالانہ300/ارب روپے کھارہے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے ان کے ساتھ روزگار فراہم کرنے والے اداروں کی طرح کا سلوک کیا۔ ملازمتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ حکومتیں اپنی پالیسیوں سے ایسا سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں جن کی وساطت سے نجی شعبہ آگے بڑھ کر سریامہ کاری کرتا ہے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ قومی اداروں کی بحالی نئی حکومت کیلئے ایک اور چیلنج ہوگا۔ سب سے اہم نئی حکومت کو ملک کے دیوالیہ ہونے کے فوری خطرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں فارورڈ بائینگ کے ذریعے نجی بنکوں سے حاصل کردہ رقم گھٹا دی جائے تو پھر مرکزی بنک کے ذخائر کی مالیت 4.3/ارب ڈالر ہی رہ جائے گی۔ رواں مالی سال کے اختتام جون 2013ء تک آئی ایم ایف کو 80کروڑ ڈالر سے زائد کی ادائیگی کی جانی ہے لہٰذا نئی حکومت کو 3.5/ارب ڈالر کے قلیل زرمبادلہ کے ذخائر ملیں گے جن سے محض ملک کی تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی ہی ہو سکے گی۔ یہ صورتحال ملک سے سرمائے کے انخلاء اور اعتماد کے فقدان کے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ مختصراً نئی حکومت کو معیشت کی کارکردگی کو بحال کرنا ہوگا، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا، اخراجات کو کم کرکے اور مزید ذرائع کو متحرک کرکے بجٹ خسارے کو کم کرنا، توانائی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا، قومی اداروں کو بحال کرنا اور ملک کو بیرونی قرضوں سے بچانا ہوگا۔ مانیں یا نہ مانیں ان چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے آئی ایم ایف کی مدد درکار ہوگی۔ 1980ء سے آئی ایم ایف کی جانب سے وضع کردہ معیشت کلاں کی پالیسیوں کا دارومدار بجٹ خسارے میں کمی اور قرضوں کو قابو کرکے افراطِ زر میں کمی لانا ہوگی۔
پاکستان سمیت کئی ممالک نے معاشی پیداوار کی قربانی دیکر اور صحت و تعلیم اور انفرااسڑکچر کے بجٹ میں کٹوتی کر کے اپنی معیشتوں کو سنبھالا ہے۔ اس ضمن میں پچھلے سال برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے سربراہی اجلاس اور آئی ایم ایف کی اسپرنگ سمٹ کے دوران گروپ 20کے قائدین نے ترقیاتی ایجنڈے کو دوبارہ مرتب کرنے کا مطالبہ کیا جس میں صرف معاشی استحکام کو ہی پالیسی کا کل نہ بنایا جانا شامل ہے۔ اسکیپ سروے 2013ء کی دستاویزات میں معیشت کلاں کی پالیسیوں میں معاشی استحکام اور ترقیاتی پہلووٴں کے مابین توازن قائم کیا گیا ہے۔ نئی حکومت کا معاشی اصلاحات کا کیا ایجنڈا ہونا چاہئے یہ میرے اگلے ہفتے کے کالم کا موضوع ہوگا۔
تازہ ترین