• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا پر 14 دن قرنطینہ کی پابندی 7 یا 10 دن کرنے پر غور

لندن (پی اے) برطانیہ میں کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آنے کی صورت میں قرنطینہ کی پابندی 14دن سے کم کرکے 7یا 10دن کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ قرنطینہ کی پابندی کا وقفہ کم کرنے پر غور حکومت کی ٹیسٹ اورٹریس اسکیم پر شدید نکتہ چینی کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ٹیسٹ اور ٹریس اسکیم میں قیادت کے خلا سے اس پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اب لوگوں کو ایک ہفتے کی آئسولیشن کے بعد ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی جاسکے گی۔ شمالی آئرلینڈ کے وزیر برینڈن لیوس نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اس حوالے سے سائنس سے رہنمائی حاصل کرے گی جبکہ حکومت کی سائنسی مشاورتی گروپ برائے ایمرجنسیز کے ایک رکن پروفیسر سر ایان ڈائمنڈ نے بتایا کہ سیلف آئسولیشن کی مدت کے بارے میں تفصیلی کام ہو رہا ہے اور مختلف اوقات میں اس پر بحث بھی کی جاچکی ہے۔ کنگز کالج لندن کی ریسرچ کے مطابق کورونا کے کسی مریض سے ملاقات کرنےوالے 10.9 فیصد افراد کو قرنطینہ کی پوری مدت کے دوران گھر پر رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے وزیر گرانٹ شیپس نے اس مہینے کے اوائل میں بتایا تھا کہ انھیں پوری امید ہے کہ بیرون ملک سے برطانیہ آنے والے لوگوں کی قرنطینہ کی مدت کم کردی جائے گی۔ دارالعوام کی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین سر برنارڈ نے کہا کہ انگلینڈ کے سسٹم کے ساتھ عوامی رائے اور تعاون میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں نظر آنے والی اور فیصلہ کن کمی ہونی چاہئے اور کسی فوجی افسر کو اس سسٹم کا انچارج مقرر کیا جانا چاہئے۔ بیرونس ڈیڈو ہارڈنگ کو موقع دیا جانا چاہئے کہ وہ اب تک حاصل ہونے والے سبق کے بارے میں بتاسکیں۔ انھوں نے کہا کہ کمانڈ اور کنٹرول کی اعلیٰ سطح پر ایسے افراد موجود ہیں جو تجزیئے، منصوبہ بندی اور ڈلیوری کو باہم مربوط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، اب لوگوں کا اس بات پر اعتماد اٹھ چکا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی مربوط منصوبہ موجود ہے۔ ہیلتھ اور سوشل کیئر ڈپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ این ایچ ایس کے ٹیسٹ اور ٹریس نے 1.1ملین سے زیادہ افراد سے رابطہ کرکے انھیں آئسولیٹ ہونے کی ہدایت کی۔ ڈیڈو ہارڈنگ اور ان کی زیر قیادت ٹیم فوج، عوام اور پبلک سیکٹر سے لی گئی ہے، جس نے برطانیہ کی سب سے بڑی تشخیصی انڈسٹری قائم کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ میں قائم کی گئی یہ انڈسٹری ٹیسکو کے برابر ہے، ہمیں مختلف شعبوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور ہم اس پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، ہم اسے نیچے کی جانب نہیں بلکہ اوپر کی جانب لے جارہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اعلان کیا گیا تھا کہ سینس بری کے سابق چیف ایگزیکٹو مائیک کوپ کو انگلینڈ کے این ایچ ایس ٹیسٹ اور ٹریس ایجنسی میں کووڈ 19کا ڈائریکٹر مقرر کیا جا رہا ہے۔ اس سروس نے 20,000سے زیادہ ٹریسر بھرتی کئے ہیں لیکن بہت سوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی کام نہیں سونپا گیا ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن نے گزشتہ جمعرات کو کہا تھا کہ زیادہ نتائج فراہم کرنے کیلئے این ایچ ایس کے ٹیسٹ اور ٹریس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے چیف سائنٹفک ایڈوائزر سر پیٹرک ویلنس نے بھی تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کیاتھا۔ 14 اکتوبر کوختم ہونے والے ہفتے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ٹیسٹ کرانے والے صرف15.1 فیصد افراد کو 24گھنٹے کے اندر نتائج دیئے گئے جبکہ اس سے ہفتہ قبل 24گھنٹے کے اندر نتائج حاصل کرنے والوں کی شرح 32.8 فیصد تھی، اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ پازیٹو رزلٹ والوں سے قریبی رابطہ رکھنے والے صرف 59.6 فیصد افراد تک ٹیم پہنچ سکی جبکہ Sage کے مطابق پازیٹو رزلٹ والوں سے قریبی رابطہ رکھنے والے کم از کم 80 فیصد افراد کو آئسولیٹ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیر صحت میٹ ہنکوک نے اس سے قبل کہا تھا کہ 31 اکتوبر تک یومیہ کم از کم 500,000 ٹیسٹ کئے جاسکیں گے جبکہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 22 اکتوبر کو 361,573 ٹیسٹ کئے گئے جبکہ ٹیسٹ کی صلاحیت 361,573 تھی ۔ ادھر کیبنٹ منسٹر لیوس نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹیمیں سیلف آئسولیشن کی مدت 14 سےکم کرنے کے بارے میں غور کررہی ہیں، تاہم حتمی فیصلہ سائنس کی روشنی میں کیا جائے گا، ہم ابھی اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ یہ بات ویلز کے فرسٹ مارک ڈریک فورڈ کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انھوں نے کہا تھاکہ حکومت 17روزہ لاک ڈائون کے دوران سپر مارکیٹس کو کپڑے اورمائیکرویو جیسی غیر ضروری اشیا کی فروخت پر پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی جبکہ ویلز کے وزیر صحت واگھن گیٹھنگ نے اس پابندی کا دفاع کیا تھا۔
تازہ ترین