• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: اکرم باجوہ۔۔۔ویانا
آسٹریا 26 اکتوبر کو اپنا یوم آزادیگرمجوشی سے مناتا ہے۔ آسٹریا برِ اعظم یورپ کے وسط میں واقع خشکی سے گھرا ہوا ایک ملک ہے۔ اس کی کل آبادی 83 لاکھ ہے۔ اس کے شمال میں جرمنی اور چیک ریپبلک، مشرق میں سلواکیا اور ہنگری، جنوب میں سلوانیا اور اٹلی جبکہ مغرب میں سوئٹزرلینڈ اور لیچٹنسٹائن کے ممالک واقع ہیں۔ آسٹریا کا کل رقبہ 83٫872 مربع کلومیٹر ہے۔ آسٹریا کی سرزمین بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے اور یہاں ایلپس پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ ملک کا 32 فیصد رقبہ سطح سمندر سے 500 میٹر سے کم بلند ہے۔ اس کا بلند ترین مقام 3٫797 میٹر بلند ہے۔ آبادی کی اکثریت جرمن زبان بولتی ہے اور اسے ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر مقامی زبانوں میں کروشین، ہنگری اور سلوین ہیں۔ آسٹریا کی بنیادیں ہمیں رومن دور سے ملتی ہیں۔ پہلی صدی عیسوی میں یہ سارا علاقہ آج کے آسٹریا کے زیادہ تر حصوں پر مشتمل تھا۔ 788 عیسوی میں یہاں مسیحیت متعارف کرائی گئی۔ ہپسبرگ شہنشاہیت کے دوران آسٹریا کو یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے ایک شمار کیا جانے لگا۔ 1867ء میں آسٹرین سلطنت کی جگہ آسٹریا-ہنگری نے لے لی۔ پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں آسٹرو- ہنگرین سلطنت کا زوال ہوا۔ 1919ء میں پہلی آسٹرین جمہوریہ قائم ہوئی۔ 1938ء میں نازی جرمنی نے اس پر قبضہ کر کے اپنے اندر شامل کر لیا۔ یہ قبضہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک یعنی 1945 تک جاری رہا جس کے بعد آسٹریا پر اتحادیوں کا قبضہ ہو گیا اور انہوں نے آسٹریا کی خود مختار جمہوری حیثیت بحال کر دی۔ اسی سال آسٹریا کی پارلیمان نے ایک اعلان جاری کیا جس کے تحت آسٹریا کو مستقل طور پر غیر جانبدار ملک قرار دے دیا گیا۔آج آسٹریا پارلیمانی جمہوریہ ہے جس میں 9 وفاقی ریاستیں شامل ہیں۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ویانا ہے جس کی آبادی 16 لاکھ سے زیادہ ہے۔ آسٹریا کو دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک مانا جاتا ہے اور فی کس آمدنی 43٫723 ڈالر سالانہ ہے۔ آسٹریا میں معیارِ زندگی بہت بلند ہے اور 2010ء میں اسے دنیا بھر میں انسانی ترقی کے اعشاریے کے مطابق 25واں درجہ دیا گیا۔ آسٹریا 1955 سے اقوامِ متحدہ کا رکن ہے۔ 1995ء میں یہ یورپی یونین کا رکن بنا۔ 1995ء ہی میں آسٹریا نے شینجن معاہدے پر دستخط کیے اور 1999ء میں یورو کو اپنا لیا۔ یوم آزادی آزاد ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی ایک ملک کی سالگرہ کی یاد میں ایک سالانہ تقریب ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی غلامی سے یا حکومتی گرفت سے آزادی پاتا ہے تو اس دن کو اس آزادی پانے والے ملک میں ہر سال یوم آزادی کی تقریبات منائی جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے تقریباً ممالک میں “یوم آزادی“ بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہر ملک کسی نہ کسی ملک یا جبری طاقتوں کی غلامی میں اسیر تھا۔ اور جیسے ہی آزادی پائی تو وہ دن جشن کا ہو گیا۔
تازہ ترین