• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پروفیسر ساجد میر نے گزشتہ روز دلچسپ بات کہی، پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی مہم کی ضرورت نہیں،کپتان ہے نا!شہباز شریف یہی بات ایک اور انداز میں کہتے ہیں،عمران خان اور پیپلز پارٹی والوں کی تقاریر ایک ہی شخص لکھتا ہے۔یوں تو جناب زرداری کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور قومی زندگی کے ہر شعبے کی تباہی ،امن وامان کی بربادی ،بیرون ملک پاکستان کی رسوائی،قومی خود مختاری کی پامالی ،بری حکمرانی، کمر توڑ مہنگائی اور جان لیوا بے روزگاری کا دور تھا۔لیکن پنجاب بطور خاص جس سنگین مسئلے سے دورچار ہوا وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی۔پیپلز پارٹی کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنے اس کمزور ترین پوائنٹ کا احساس تھا چنانچہ اس نے میڈیا میں اپنی اشتہاری مہم کا آغاز ہی اس حوالے سے گمراہ کن اشتہارات سے کیا ،نواز شریف نے بینظیر دور میںآ ئی پی پیز سے کئے گئے معاہدے ختم کر دیئے،بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بھاگ گئیں۔ مسلم لیگ ن پر اس کی مزید ذمہ داری ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ شہباز شریف نے پنچاب میں بجلی کیوں پیدا نہ کی؟ سابق وزیر اعلیٰ اپنی پریس کانفرنس میں اس کا بھرپور جواب دے چکے۔ جناب سرتاج عزیزنے بھی قومی پریس میں اپنے مفصل آرٹیکل کے ذریعے حقائق واضح کر دیئے۔ عرفان صدیقی صاحب کے حالیہ کالم میں بھی اس حوالے سے خاصا مواد موجود ہے لیکن کپتان پیپلز پارٹی کی لائن ہی کو آگے بڑھا رہا ہے،پنجاب میں لوڈشیڈنگ کاذمہ دارزرداری نہیں،شہباز شریف ہے۔کپتان کی طرف سے پیپلز پارٹی پر یہ احسان یکطرفہ نہیں۔احسان کا بدلہ احسان۔چنانچہ ایک طرف چودھری پرویز االٰہی کامران خان کے پروگرام میں اظہار مسرت کر رہے تھے کہ تحریک انصاف کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت میدان میں ابھر آئی ہے اور یہ کہ اس کا اصل نقصان مسلم لیگ ن کو ہوگا۔بڑے میاں سوبڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ،مونس الٰہی اپنے والد سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ اپنے ٹوئٹراور فیس بک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ جہاں مسلم لیگ ق یا پیپلز پارٹی کا امیدوار نہیں وہاں ق لیگ کے کارکن تحریک انصاف کو سپورٹ کریں۔اعتزاز احسن آج کل قومی اسمبلی کے حلقہ 124(لاہور)میں اپنی بیگم صاحبہ کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں انہیں اس وقت سخت خجالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بجلی چلی جاتی ہے ۔ تب بدلحاظ ووٹر ہائے بجلی ، ہائے بجلی کے نعرے لگا نے لگتے ہیں۔گزشتہ شب جنریٹر چلانے میں تاخیر پراعتزاز احسن آپریٹر پر برس پڑے تو لوگوں نے کہا، ہم نے پانچ سال یہ عذاب بھگتا ہے آپ بھی چند منٹ اس کا مزہ لے لیں۔
پیپلز پارٹی سینٹرل پنچاب کے صدر منظور وٹوجن کی دیپالپور والی نشست خطرے میں نظر آتی ہے، کو اس فراخ دلانہ پیشکش میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ پیپلز پارٹی (نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے )آئندہ کولیشن میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر سکتی ہے۔ محترمہ شیریں مزاری منظور وٹو کی اس بات کو کپتان کے خلاف سازش قرار دیتی ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی کولیشن ایک ناممکن سی بات نظر آئی لیکن کپتان کے سیاسی تضادات اور 17سالہ سیاسی سفر کے ”U turns“کو دیکھیں تو ان سے کچھ بھی بعید نہیں لگتا۔ انہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد اس نعرے کے ساتھ رکھی کہ ”دونوں“میں کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کاسنگ بنیاد نوز شریف سے رکھوایا تھا کہ انہوں نے اس کے لئے زمین کے علاوہ اپنے خاندان کی طرف سے خاطر خواہ مالی امداد بھی فراہم کی تھی۔اب انہوں نے یہ سنگ بنیاد اکھاڑ پھینکا ۔ وہ نواز شریف اور بینظیر دونوں کے لیے یکساں الفاظ استعمال کرتے ، دونوں کے ذکر پر ان کے اعصاب تن جاتے ۔پھرزیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ نواز شریف حکومت کے خلاف ڈیموکریٹک الائنس میں پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گئے۔ مشرف کے 12اکتوبر کے فوجی اقدام کے وہ پرجوش موئید تھے ۔ انہوں نے اس کے ریفرنڈم میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ تب ریفرنڈم مہم میں طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف میں مقابلہ ہوتا کہ کس کے جھنڈے زیادہ ہیں اور کس کے نعروں کی گونج بلند تر ہے۔ مشرف کے خلاف اے آر ڈی کا قیام عمل میں آیا تو وہ اسے چوروں کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے تھے۔ 9/11کے بعد مشرف نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور” دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کوپاکستان کی جنگ بنا دیا ۔ کپتان تب بھی مشرف کا حامی تھا ۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن کے لئے وہ کم از کم 100نشستیں مانگ رہا تھا لیکن جنرل احسان 40سے آگے جانے کو تیار نہیں تھا۔ یہ ساری کہانی انڈین مصنف فرینک حضور کی عمران خان پر کتاب میں موجود ہے جس کے ایک ایک ورق میں عمران خان سے مصنف کی محبت چھلکی پڑتی ہے۔اور جس کی تیاری میں کپتان کی فیملی کے علاوہ اس کے دوست احباب نے بھی بھرپور تعاون کیا ۔ الیکشن میں لین دین کے حوالے سے مشرف سے اس کی آخری ملاقات 23جولائی 2002ء کو ہوئی ۔ ڈکٹیٹر کے ساتھ یہ اس کی آخری ملاقات تھی ۔ اس کے بعد ایک دن وہ جدہ کے سرور پیلس میں دیکھے گئے جہاں وہ شہباز شریف کی طرف سے شوکت خانم ہسپتال کے لیے ارسال کیے گئے 25لاکھ روپے کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔ نواز شریف نے جولائی 2007ء میں لندن میں آ ل پارٹیز کانفرنس بلائی تو کپتان وہاں بھی بھاگم بھاگ پہنچا۔ اس کے فالو اپ میں اے پی ڈی ایم بنی تو کپتان اس میں بھی شامل تھا ، اب اسے خود کو نواز شریف کا جونئیر پارٹنر کہنے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔وہ الطاف حسین کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرانے لندن پہنچا اور پھر ایم کیو ایم کے ساتھ ”گنجائش اور سہولت “ کی پالیسی اختیار کر لی ۔ اس نے فروری 2008کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پھر ان ہی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے لگا ۔ یہ تجربہ خاصا تلخ رہاتو دوبارہ بائیکاٹ کی طرف لوٹ گیا ۔ شیخ رشید کے متعلق وہ کیا کیا کہتا رہا اور آج اسی شیخ رشید کا وہ اتحادی ہے۔ وہ اسٹیٹس کو کے خلاف بات کرتا ہے لیکن سٹیٹس کو کی سبھی علامتیں اس کے گرد جمع ہیں ۔ وہ موروثی سیاست کے خاتمے کا علم بردار ہے لیکن کیسے کیسے جدی پشتی سیاست دان اس کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں ۔ وہ الیکشن میں نئے چہرے لانے کا دعویدار ہے لیکن ان نئے چہروں کی بڑی تعداد پرانے سیاسی خانوادوں کی چشم و چراغ ہے۔ وہ دوسروں پر باریاں لینے کا لزام لگاتا ہے لیکن اس کے گرد و پیش جاوید ہاشمی سے لیکر شاہ محمود قریشی، خورشید محمود قصوری اور شفقت محمود تک کتنے ہی لوگ ہیں جو ماضی میں کئی کئی باریاں لے چکے۔تو ایسے میں اگر منظور وٹو پی ٹی آئی کے ساتھ کولیشن کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ کو ئی ناممکن بات نظر نہیں آتی۔
کپتان کا کہنا ہے کہ وہ 17سال سے اس میچ کے انتظار میں تھا لیکن ان 17برسوں میں وہ دو میچ کھیل چکا ۔ ایک 1997ء میں جب اس نے پورے ملک میں 130امیدوار کھڑے کئے وہ خود بھی 8نشستوں سے امیدوار تھا اور ہر جگہ ضمانتیں ضبط کرا بیٹھا۔ پھر 2002ء کے میچ میں بھی حصہ لیا جس میں تحریک انصاف کے حصے میں صرف اس کی ایک نشست آئی تھی یہ بھی اس کے آبائی ضلع میاں والی سے۔لاہور میں سردار ایاز صادق کے 38ووٹوں کے مقابلے میں وہ صرف 17ووٹ حاصل کر پایا تھااب 11مئی کے میچ میں وہ ایک بار پھر اس حلقے سے ایاز صادق کے مد مقابل ہے۔
کپتان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کا مقابلہ تحریک انصاف کے جنون سے ہے جس پر شہباز شریف نے مصرعہ طرح لگایا،مقابلہ نون اور جنون میں نہیں ،نون اور قارون میں ہے۔”قارون “ کون ہے شہباز شریف نے نہیں بتایا تو کیا ان کا اشارہ کپتان کے سابق سسرالی خاندان کی طرف ہے ؟ کھرب پتی سر جیمز گولڈ کا خاندان جس نے 1997ء کے الیکشن میں نو زائیدہ تحریک انصاف کو 50لاکھ پونڈ بھجوائے تھے۔ پاکستانی روپے میں یہ ایک خطیر رقم تھی۔ کہا جا تا ہے اپنے گزشتہ دورہ لندن سے وطن واپس آتے ہوئے انابیل گولڈ سمتھ، جمائما اور سلمان اور قاسم سے اس کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم کو الوداع کہہ رہے ہیں۔
تازہ ترین