• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو بعد کی بات ہے کہ عمران خان نون لیگ کی کتنی وکٹیں اڑاتا ہے لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ اس نے (ن) لیگ کی نیندیں ابھی سے اڑا دی ہیں۔ عمران آدمی عالی ظرف ہے، ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالہ سے میں نے پچھلے دنوں خاصے زہریلے کالم لکھے اور پھر چند روز پہلے میرے انہی کالموں کو بنیاد بنا کر ایک نوجوان ٹی وی اینکر نے عمران کو ”پرو ووک“ کرنے کی کوشش کی بلکہ ”عمران کا اغواء“ کے عنوان سے لکھے گئے میرے کالم سے اقتباسات پڑھ کر بھی اسے کارنر کرنا چاہا تو اس نے خوشدلی سے کہا کہ ”حسن نثار کا قلم بہت جاندار ہے، تباہی مچا دیتا ہے، کچھ دو نمبر لوگ اگر ہماری صفوں میں گھس بھی آئے ہیں تو اول یہ کہ سیدھے ہو جائیں گے ورنہ فارغ اور خارج کر دیئے جائیں گے“ یہاں عمران نے کینسر ہسپتال کے حوالہ سے اپنا تجربہ بیان کیا جو میرے لئے حیران کن اور کسی انکشاف سے کم نہیں تھا۔ اس نے بتایا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے آغاز میں بھی کچھ دو نمبر لوگ نقب لگانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن ہم نے تیزی اور بے رحمی سے انہیں ”ویڈآؤٹ“ کر دیا اور آج یہ حالت ہے کہ ہسپتال میں کوئی آدمی رشوت لینے یا دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ہاں میرے دوست، مری جان! یہی وہ عمران خان ہے جس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری نجس سیاست کا کلچر تبدیل کرے گا۔ یہ ”سستی روٹیاں“ یہ ”پیلی ٹیکسیاں“ یہ ”میٹرو بسیں“ وغیرہ نان سینس ہے۔ ضرورت ہے بنیادی رویے اور کلچر تبدیل کرنے کی۔ یہ ”اوور ہیڈز“ اور ”انڈر پاسز“ لیڈروں کے نہیں کلرکوں کے کام ہیں جنہیں تام جھام کے ساتھ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے بے رحمی اور بے حیائی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی مہاتیر محمد نے انڈر پاسز، اوور ہیڈز، میٹرو وغیرہ جیسی معمولی بے معنی معمول کی باتوں کا کریڈٹ لیا؟ لیڈر ”مائیکرو“ نہیں ”میکرو ویژن“ کا حامل ہوتا ہے جو کلچر اور عمومی رویے بدلتا ہے… سڑکوں کی شکل نہیں۔ یہاں تو ہر منصوبہ ڈرامہ، ڈھکوسلہ یا پبلسٹی سٹنٹ، سوداگران سیاست کا ہر منصوبہ فراڈ یا فلاپ… کمال یہ کہ کاریگر ان باتوں کا کریڈٹ لے رہے ہیں، جن پر ندامت، خجالت اور شرمندگی ہونی چاہئے۔ سستی روٹی عرف مہنگی ترین پبلسٹی کو تو آڈیٹر جنرل نے ہی ننگا کر دیا کہ کس طرح عوام کا اربوں روپیہ کھایا گیا۔ میٹرو بس کے بارے اک تازہ ترین خبر کی صرف یہ چند سرخیاں ہی کافی ہوں گی۔
”اخراجات زیادہ، آمدنی کم، ڈیزل کی عدم دستیابی، میٹرو بس خسارے کا شکار، 45 بسیں بند“
”ڈیزل نہ ملنے پر چند روز پہلے بھی بس سروس 6 گھنٹے معطل رہی تھی“
تیل کی ادائیگی کر دی، کمپیوٹر سسٹم میں خرابی کے باعث بس سروس معطل رہی“ ترجمان۔
یہ حال ہے اس احمقانہ عظیم الشان منصوبہ کا جسے شروع ہوئے جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئے۔
ن لیگ کے منصوبے ایسے ہی ہیں جیسے کوئی میری ہی ٹانگ کاٹ کر اس کا ”لیگ روسٹ“ تیار کرکے مجھے دعوت پر بلائے اور میری ہی بھنی ہوئی ٹانگ مجھے پیش کرکے کہے … ”چکھ کر دیکھئے کتنی خستہ اور لذیذ ہے“ ”پیلی ٹیکسی“ سے لے کر ”سستی روٹی“ تک یہ سب آرائشی، زیبائشی، فلاپ اور فراڈ قسم کے پراجیکٹس ہیں۔ یہ بھوکے ننگے عوام کے گوشت کا قورمہ اور ہڈیوں کا سوپ بنا کر انہی کی کھالوں کے دستر خوان پر رکھ کر کہتے ہیں … ”لو کھاؤ مرو اور یہ لذیذ کھانا ہضم ہونے سے پہلے ہمیں ووٹ دے کر اپنے نمک حلال ہونے کا ثبوت بھی پیش کرو“تازہ ترین میاں صاحبی ملاحظہ ہو کہ ماشاء اللہ پنڈی سے مری تک ٹرین لے کر جائیں گے اور بلٹ ٹرین چلے گی۔ پنڈی سے حویلیاں براستہ مانسہرہ خنجراب تک… قرضوں کی شکل میں رشوت در رشوت در رشوت۔ اللہ اس بوسہ مرگ (KISS OF DEATH) سے اس ملک کو محفوظ رکھے ورنہ یاد رہے یہ آخری ”بوسہ“ ہو گا۔اک ٹی وی اشتہار آپ نے بھی دیکھا ہو گا جس میں ”خادم اعلیٰ“ جسٹس قیوم (جو اب ریٹائر ہو چکے) سے گفتگو فرما رہے ہیں۔ اس گفتگو کو بار بار سنئے غور سے سنئے اور سر دھنئے کہ ”سیاستدانی“ کا کیا لیول ہے جو پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنے کا دعویدار ہے۔ معاشرہ پڑھا لکھا اور مہذب ہوتا تو اس ملک میں کہرام مچ جاتا۔ پاکستان زمین ان پر تنگ پڑ جاتی، ایوانوں میں زلزلہ آ جاتا لیکن یہاں اندھیروں کے سفیر ”روشن پاکستان“ کے سراب دکھا رہے ہیں۔ میرا رب میرے پاکستان کو ہر عذاب سے محفوظ رکھے کہ رہی سہی کسر اس اشتہار نے پوری کر دی ہے جس میں میاں نواز شریف صاحب کے یہ بیان سرخیوں، تاریخوں اور اخبارات کے ناموں سمیت موجود ہیں۔ ”پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظام چاہئے“ نواز شریف 17نومبر 1998ء ”طالبان بہتر طریقہ سے نظام حکومت چلا رہے ہیں“نواز شریف 27 نومبر 1998ء واقعی ان کا بویا ہوا آج پوری قوم کاٹ رہی ہے… اور جو کچھ یہ قوم 11 مئی کو بوئے گی… بعد ازاں وہی کچھ کاٹنے پر مجبور ہو گی۔ قوم ہوشیار و خبردار رہے کہ معاشی طور پر بدحال جلتے بجھتے پاکستان کے پاس مزید کسی غلطی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں!
تازہ ترین