• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”نیا قانون“ ہماری سیاسی لغت کا استعارہ بن چکا۔ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کے دنوں کا قصہ ہے۔ ایک زندگی سے بھرپور کوچوان کی کہانی ہے جسے بس ایک ہی دکھ ہے کہ ایک رات نشے میں دھت کسی گورے نے اس کی توہین کی تھی۔ منگو کوچوان اس گورے سے بدلہ لینے کیلئے بے قرار ہے۔ اس نے کہیں سے سنا کہ یکم اپریل کو نیا قانون نافذ ہونیوالا ہے جسکے بعد شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔یکم اپریل کی شام منگو کوچوان کی نظر اس گورے پر پڑتی ہے اور وہ اسے نئے قانون کی ترنگ میں گھونسوں کی باڑھ پر رکھ لیتا ہے۔تاہم پولیس منگو کو پکڑ لیتی ہے تاکہ اسے بتایا جا سکے کہ نئے قانون کی دہائی دینا بے معنی ہے،قانون وہی ہے پرانا۔منٹو کے کچھ نقاد اس کہانی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دنیا میں تبدیلی اور بہتری کا خواب بے معنی ہے۔ ظلم اور برائی کی بالادستی ابدی ہے۔ لیکن یہ تشریح منٹو پر ظلم ہے۔ نیا قانون تو دراصل غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف ایک وطن پرست کی للکار ہے۔ منٹو امرتسر کی گلیوں میں پلا بڑھا تھا۔ حریت امرتسر والوں کے خمیر میں شامل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ امرتسر میں پیش آیاتھا ۔ منٹو غریب تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اگرانگریز بہادر ہندوستان پر بدستور حکمران ہے تو انڈیا ایکٹ 1935ء آزادی اور انسانی مساوات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1935ء کے اسی انڈیا ایکٹ نے دس برس بعد آزادی کی راہ ہموار کی۔ گویاضروری نہیں ہوتا کہ آئین کے ارتقاء اور عوام کی خواہشوں کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہو۔ ان دنوں پاکستان میں منگو کوچوان کے کچھ بھائی بھتیجے نیا پاکستان کی گردان کر رہے ہیں۔ منگو کے کچھ ننہالی بھائی بند پاکستان بدلنے کا نعرہ اس خروش سے بلند کر رہے ہیں گویا ابھی تانگے سے کود کر حریف کو پیٹ ڈالیں گے۔ ہماری اجتماعی یادداشت میں نئے پاکستان کی اصطلاح سے کچھ ایسی خوشگوار یادیں وابستہ نہیں۔متحدہ پاکستان کی شکست و ریخت کے بعد بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو 20 دسمبر 1971ء کی رات قوم سے اپنے خطاب میں عزم ظاہر کیاتھا کہ ”ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے“۔ حق تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے درماندہ اور دل شکستہ پاکستان میں اعتماد کی روح پھونکی۔ مرحوم کی فروگزاشتیں اپنی جگہ لیکن انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں قوم اورعوام کا تشخص بحال کیا۔ تو صاحب! تبدیلی کی خواہش میں کوئی خرابی نہیں۔ حالات کو جوں کا توں رکھنا سرے سے سیاسی عمل کا مقصد ہی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ رجعت پسند اور احیاء پسند بھی حال پر قانع نہیں ہوتے۔ حالات کو تبدیل کرکے ماضی کی طرف جانا چاہتے ہیں۔تاہم انتخابی عمل کے ذریعے یہ فیصلہ کرنا عوام کا استحقاق ہے کہ تبدیلی کا رخ کیا ہوگا۔ انتخابات وہ بارش ہیں جنکے بعد عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ارمانوں کو کس مٹی میں بونا ہے۔ اس عمل میں صرف اتنی احتیاط چاہئے کہ منگو کوچوان کی طرح راتوں رات تبدیلی کا خواب دیکھنے سے مایوسی ہاتھ نہ آئے۔ ایک مہذب اور جمہوری قوم میں انتخابات معمول کی سرگرمی ہوتے ہیں۔ انہیں حق و باطل کا معرکہ نہیں بنانا چاہئے۔ جمہوری تسلسل کی روایت مضبوط ہوگی تو یہ توقع کی جا سکے گی کہ عوام مثالیت پسندی اور سیاسی قیادت مقبولیت پسندی کے غبار سے باہر نکل آئینگے۔ ہمیں حقیقت پسندی کی ضرورت ہے۔
یوم شہدا کے موقع پر راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی کے خطاب کا بنیادی نکتہ حقیقت پسندی تھا۔ جنرل صاحب نے جمہوریت ، قومی ترجیحات اور دہشت گردی جیسے اہم امور پر ایسے عمیق خیالات کا اظہار کیا جن پر سب حلقوں کو نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جنرل صاحب جب بھی لب کشائی کرتے ہیں، ذرائع ابلاغ میں ان کے خود ساختہ ترجمان اکھاڑے میں اتر آتے ہیں اور ایسی تشریحات کرتے ہیں، جن کا اصل متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ مہربان تو کوئی تکلف روا رکھے بغیر جنرل صاحب کے ”ارشادات میں ملفوف اشاروں اور پیغامات“ کا عنوان بھی باندھتے ہیں۔ ایک محترم فرماتے ہیں کہ جنرل صاحب نے پیغام دیا ہے کہ ”ہم جمہوریت کو ایک اور موقع دے رہے ہیں لیکن اگر آپ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔“۔ خدا کا خوف کیجئے۔ فوج کا حاضر سروس جنرل ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے۔ جمہوریت کوئی رعایت نہیں، کسی عالی سرکار کا تحفہ نہیں، کسی کی عنایت نہیں۔ عوام کا بنیادی اور لاینفک حق ہے ۔ دستور کے مطابق جمہوریت ملکی بندوبست چلانے کا واحد قانونی راستہ ہے۔ جمہوریت سے انحراف کا خیال بھی ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ ہمارے کچھ خیر خواہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکالنے کیلئے بے تاب ہیں۔ کیانی صاحب نے واضح الفاظ میں ان عزیزان گرامی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اصل مسئلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکلنے کا نہیں، دہشت گردی کو پاکستان سے نکالنے کا ہے۔
سپہ سالار کے خود ساختہ شارحین فرماتے ہیں کہ ”جنرل صاحب کا پیغام یہ ہے کہ اپنے تمام انڈے الیکشن نام کی ٹوکری میں نہ رکھیں، بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں…۔“ دیکھیں جناب ، جنرل صاحب ایسے بلند پایہ فلسفی کا شارح کوئی ایک نابغہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان کے تمام ہم عصر اپنی محدود استعداد کے مطابق اس بحر بے کراں میں غوطہ زن ہوں اور جو گوہر آبدار ہاتھ لگیں انہیں قوم کے سامنے پیش کریں۔ میری ناقص رائے میں جنرل صاحب نے فرمایا ہے کہ قوم اپنے تمام تازہ اور صاف ستھرے انڈے انتخاب نام کی ٹوکری میں رکھے۔ البتہ جن انڈوں پر خوشامدکے دھبے نمودار ہو چکے ہوں یا جن انڈوں سے ذاتی حرص کی ناگوار بو کا صدور پایا جائے، ان گندے انڈوں کو علامہ اقبال کی ہدایت کے مطابق گلی میں پھینک دیا جائے۔ جنرل کی تقریر کا مفہوم نہایت رجائی ہے۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ صاف ستھرے انتخابات کے نتیجے میں قومی یک جہتی ، تمدنی توانائی اور معاشی ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں ۔ جنرل صاحب کا یہ مفروضہ انتباہ کہ ”اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں“ بھی نہایت برمحل ہے۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ان صحافیوں کو جو اپنی کردہ اور ناکردہ خدمات کے صلے میں سفارت وغیرہ کی امید لگا بیٹھتے ہیں، اپنی حدود میں رہنا چاہیے نیز پنجہ کاری کی مشق کے ذریعے قومی عظمت کے نشانات پر خراشیں ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ صحافت کی نگری میں بادشاہ لوگوں کے قصے ہیں۔ عشروں سے یہ بادشاہ لوگ جمہوریت کی ہڈیاں بھنبھوڑتے رہے ہیں۔ آمریت کی دھوپ میں خوشامد کی چھتری تلے بیٹھ جاتے ہیں اور زور زور سے گاتے ہیں، ”میں نے اس سے یہ کہا …کہ یہ جو دس کروڑ ہیں، یہ جہل کا نچوڑ ہیں… وغیرہ، وغیرہ “۔ ایک ہوتے تھے پیر علی محمد راشدی۔ صحافت سے ہوتے ہوئے سیاست اور پھر سفارت کی سبز وادیوں تک پہنچے۔ جن دنوں سرزمین پاک پر ایوب خان کا ورود ہوا، پیر صاحب فلپائن میں ہمارے سفیر ہوتے تھے۔ پیر علی محمد راشدی نے ایوب خان کو ایک خط لکھا جس میں ایوب کی نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں جیسی خوبیاں گنوا کر ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ خود کو پاکستان کا بادشاہ قرار دے دیں۔ آپ نے دیکھا کہ بادشاہتوں کے معاملات بادشاہ ہی سمجھتے ہیں۔ جیسے کچھ پیران مغاں جنرل کیانی کے دہان شیریں سے گرنے والے پھول سمیٹ کر آرزوؤں کے ہار پرونے دوڑتے ہیں۔ خدا لگتی بات ہے کہ جنرل صاحب نے یوم شہدا کے موقع پر نہایت جچی تلی باتیں کہی ہیں۔ البتہ خود ساختہ شارحین کرام اور مفسرین فتنہ ساز کے ارشادات کا جنرل کیانی کی گفتگو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہار تو ان باسی پھولوں سے پروئے گئے ہیں جو ذاتی اغراض کی بے رس سیج پر بارہا مسلے جا چکے۔ معلوم ہوتا ہے ان کی دکان بڑھانے کا وقت آپہنچا ۔ منٹو کا ایک افسانہ ”بادشاہت کا خاتمہ“ بھی تو ہے۔ بس اس دیوالیہ دکان کے بند تختے پر یہی کتبہ مناسب رہے گا، ’بادشاہت کا خاتمہ‘۔
تازہ ترین