• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو انتخابات کا عمل سیاست اور جمہوریت کے سرخرو ہونے کی علامت ہے لیکن یہ دیکھئے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں جس بیان نے ایک ہلچل سی مچا دی تھی اور بیانات اور تبصروں کا ایک انبار لگا دیا وہ بری فوج کے سربراہ کا تھا اور کسی کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی کسی لکھی ہوئی تقریر میں ملک کی موجودہ صورتحال پر اپنے موقف کا اظہارکریں تو سب اسے غور سے سنیں اور یہ فرض کر لیں کہ ان کے کہے ہوئے لفظوں میں ضرور کوئی رمز، کوئی پیغام، کئی اشارے پوشیدہ ہیں۔ تو راولپنڈی میں اپریل کے آخری دن یوم شہداء کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کیا کہا ؟ اس اخبار کی بڑی سرخی یہ تھی ” جمہوریت آمریت کا کھیل جزا و سزا سے ختم نہیں ہو سکتا۔جنرل کیانی، اس کے علاوہ بھی کئی ایسی سرخیاں بنیں جو اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بات انہوں نے یہ کہی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف فوج کی جنگ سمجھنا ہمیں انتشار کی طرف لے جائے گا “ گویا یہ جنگ ہماری ہے، امریکہ کی نہیں، اس کے علاوہ انہوں نے انتخابات کے صاف، شفاف اور پرامن انعقاد میں پاک فوج کی بھرپور معاونت کا یقین دلایا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ جمہوریت کی کامیابی عوام کی خوشحالی سے منسلک ہے۔
یہاں میرا مقصد جنرل کیانی کے بیان پر تبصرہ کرنا نہیں ہے۔ میرے لئے تو یہ حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ جس موضوع کو میں ایک اور حوالے سے چھیڑنا چاہتا تھا اور اسے ٹانگنے کے لئے مجھے جنرل کیانی کے بیان کی کھونٹی مل گئی ۔اسی صفحے پر ”گزشتہ ہفتے “ سلیم صافی نے اپنے کالم میں یہ خبر دے دی تھی کہ وہ اور میں اسی وفد میں شامل تھے جو غیر سرکاری تنظیم بلڈاٹ کی جانب سے جنوبی کوریا یہ سمجھنے کے لئے گیا تھا کہ اس ملک نے فوجی آمریت سے جمہوریت تک کے سفر میں اتنی حیرت انگیز ترقی کیسے کی اور اب جمہوری اور آئینی حکومت نے اپنی فوج سے کسی نوعیت کا رشتہ استوار کیا ہے۔ اس موازنے کا ایک جواز تو یہ ہے کہ جب پاکستان اور جنوبی کوریا نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو پاکستان ،جنوبی کوریا سے کچھ آگے تھا یہی نہیں، جنوبی کوریا نے پاکستان کے پنج سالہ منصوبے کو اپنا ماڈل بنایا اور ایک طویل عرصے تک وہاں فوج نے حکمرانی کی۔ فوج کی حکمرانی کا خاتمہ کیسے ہوا اور جمہوریت کیسے پروان چڑھی، یہ ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جنوبی کوریا کے تجربے سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی دو ملک، دو معاشرے بالکل ایک جیسے کبھی نہیں ہوتے اس کے باوجود دنیا سے سیکھنے اور اپنے آپ کو بدلنے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا میرے لئے اس دورے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ میں کوئی بیس سال پہلے اپنے اخبار ”دی نیوز“ کے لئے مضامین لکھنے دوبار جنوبی کوریا گیا تھا اور میر ی جستجو بھی کچھ یہی تھی۔ اب جو میں نے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کو دیکھا تو حالیہ سالوں میں کی جانے والی ترقی کی چکا چوند نے میرے ذہن میں اپنے ملک کی ظلمتوں کو زیادہ اجاگر کر دیا۔کیونکہ بلڈاٹ نے جنوبی کوریا میں پاکستان کے سفیر شوکت مقدم کے تعاون سے اعلیٰ ترین سطح پر ملاقاتوں اور مطالعے کا ایک مربوط پروگرام ترتیب دیا تھا اس لئے اس بار سب کچھ جاننے سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ،پھر بھی، پاکستان اور اس کی جمہوریت کے بارے میں کئی سوال مسلسل تنگ کرتے رہے۔ کیونکہ یہ دورہ انتخابی مہم کے دوران کیا گیا اس لئے وہ اندیشے جن کی ایک جھلک ہم نے جنرل کیانی کے بیان میں دیکھی وہ اس سفر میں زاد راہ کی مانند ہمارے ساتھ رہے۔ کیا جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی کے کھیل کا تسلسل ہے یا واقعی جمہوریت ہی ہمارے ملک میں جڑیں پکڑ رہی ہے ؟“ گزرے ہوئے پانچ سالوں کی جمہوریت کسی طرح بھی عوام کے دکھوں کا علاج، نہ تجویز کر سکی اور اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات زندگی اور موت کا ایک ایسا معرکہ بن گئے ہیں کہ جیسے ان کا صاف، شفاف ہونا ہی سب کچھ ہے اور یہ نکتہ تو جمہوریت پر ہونے والی ہر گفتگو میں اٹھایا جاتا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں ۔ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات تک ہماری دسترس سے باہر جمہوری اقدار اور طرز زندگی تو جیسے خواب کی باتیں ہیں۔
تو پھر پاکستان کیسے ترقی کرے گا اور عام لوگ اپنے بنیادی حقوق کیسے حاصل کریں گے ؟ میں جنوبی کوریا کے دورے کی بات کر رہا تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک کسی آمرانہ نظام کے ذریعے تعلیم اور معاشی ترقی کی زمین تیار نہ کی جائے، جمہوریت کے سدا بہار پودے کی آبیاری نہیں کی جا سکتی۔ لیکن مثالیں تو کئی ہیں اور مختلف ہیں۔ سیول میں پالیسی بنانے والے، ریسرچ کرنے والے اور نجی شعبے میں ایجادانہ کامرانیاں حاصل کرنے والے اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ آپس میں بھی بہت بحث مباحثہ ہوا۔ اب بیٹھ کر سوچنا یہ ہے کہ کیا دیکھا اورکیا سیکھا۔ میری اپنی کہانی یہ ہے کہ جنوبی کوریا سے واپسی کے تین دن بعد میں اسلام آباد کے ادبی میلے میں کھو گیا ۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک فکر انگیز معاملہ رہا۔ دو دن گویا اسلام آباد کی علمی اور ثقافتی زندگی کو برق کے کوندے سے منور کر گئے۔ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ اپنی ذات اور اپنی دنیا کو سمجھنے کے لئے شاعری اور ادب سے آگاہی ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ کیونکہ جنگ /جیو گروپ اس میلے کا میڈیا پارٹنر تھا اس لئے میرا اس ولولہ انگیز تقریب سے ایک قریبی تعلق رہا۔ یہاں اس میلے کاذکر اس لئے برمحل ہے کہ کتابوں اور ان کے لکھنے والے مفکروں اور ادیبوں کے حوالے سے حالات حاضرہ کے یارے میں کئی سیشن منعقد کئے گئے۔یعنی موجودہ انتخابات کے شور سے پیوستہ ،پاکستان اور جمہوریت کے رشتے پر بھی بہت گفتگو ہوئی۔ عالمانہ بھی اور جذبات سے بھرپور بھی، تخلیقی ادب اور فنون کے علاوہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں پر تحقیق اور تبصرہ کرنے والی اہم ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ یہی نہیں، اسلام آباد کے تقریباً سارے باذوق اور کتابوں سے محبت کرنے والے افراد ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ایک ایسی پارٹی بھی جس کے لئے کسی دعوت نامے کی ضرورت نہ ہو ستارے بھی کئی تھے اور پرستاروں کا ہجوم انہیں گھیرے ہوئے تھا۔انگریزی اور اردو اور پاکستان کی دوسری زبانوں میں لکھنے والے ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ میں جب بھی ملک کی معاشرتی اورسیاسی صورتحال پر نظر ڈالتا ہوں تو مایوسی مجھے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ لیکن اس ادبی میلے میں روشنی کی ایک کرن بھی تھی کہ ایسے بہت لوگ ہیں کہ ”جنہیں حسن سے بھی لگاؤ ہے ،جنہیں زندگی بھی عزیز ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میلے سے باہر کے حالات کی دھمک ہم نے نہیں سنی۔ امن و امان کی جو کیفیت ہے اس کا تازہ ترین مظاہرہ اسلام آباد میں جمعہ کی صبح، بینظیر بھٹو قتل کیس کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کا قتل ہے۔ طالبان ان جماعتوں پر وار کر رہے ہیں جن کے بارے میں انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ملک میں لبرل اور روشن خیال سوچ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ کیا گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت کرنے والی جماعتوں نے ایسا کوئی ثبوت دیا ہے؟ ہوا تو یہ ہے کہ خود طالبان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ بہرحال، مجھے یہ کہنا ہے کہ ادبی میلے میں زبان و ادب کے ساتھ ساتھ، سیاست کے اختلافی موضوعات پر بھی بحث کی گئی۔ مثلاً دہشت گردی اور انتہاپسندی پر بھی گفتگو ہوئی۔ ایک نشست کا عنوان تھا ”پاکستان ایک دوراہے پر “موروثی سیاست پر بات ہوئی۔ دفاعی اور خارجی امور زیر بحث رہے لیکن آخر میں میلے کے افتتاحی اجلاس کا ذکر کروں گا ۔کلیدی خطاب اردو میں انتظار حسین نے اور انگریزی میں کاملہ شمسی نے کیا اور دونوں نے حاضرین کو کسی اور دنیا میں پہنچا دیا۔ انتظار حسین کا تعارف کراتے ہوئے آصف فرخی نے ان کے عظیم ناول ”بستی“ کا ذکر کیا اور اس ناول کے ابتدائی اور آخری فقرے سنائے۔ میں یہاں بستی کے آخری الفاظ نقل کر رہا ہوں“ کا کے ،بشارت ایسے ہی وقت میں ہوا کرتی ہے جب چاروں طرف …“ کہتے کہتے رکا۔ پھر سرگوشی میں بولا ، یہ بشارت کاوقت ہے۔
تازہ ترین