• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علم جتنا بھی ہو کم ہے کیونکہ یہ مومن کی میراث ہے اور ترقی کا زینہ بھی۔ یہی معاملہ زبانوں کا ہے کیونکہ زبان باہمی رابطے کا ذریعہ ہوتی ہے لہٰذا جتنی زبانیں آپ زیادہ جانتے ہوں گے وسیع تر روابط میں اتنی ہی سہولت رہے گی اور انگریزی تو ٹھہری ہی بین الاقوامی رابطے کی موٴثر اور مرغوب ترین زبان۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ تاج برطانیہ کی سو سالہ غلامی کے سبب انگریزی کے حوالے سے ہم مرعوبیت کا شکار ہو گئے ہیں اور انسانوں کو ان کی اسپوکن انگلش اور لب و لہجے کے معیار پر پرکھتے ہیں جو شاید دنیا میں کہیں اور نہیں ہو رہا۔ ہمسایہ بھارت کو ہی لیجئے وہاں ہر کوئی انگریزی میں گزارہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دکانداروں سے لے کر ٹیکسی، رکشہ اور ڈھابے والوں تک ہر کوئی اس بدیشی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے، اور تو اور پرائمری اسکول کی عمر کے بچے، ٹورسٹ گائیڈ بنے ہوئے ہیں اور اپنی انگریزی سے گاہکوں کو رجھا رہے ہوتے ہیں۔ فتح پور سیکری میں ایک دس، بارہ برس کا بچہ تو ہمارے پیچھے ہی پڑ گیا تھا کہ ہم اسے اپنا گائیڈ بنا لیں۔ بیگم ہمراہ تھیں، بڑی مشکل سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ بھئی ہم تو خود تاریخ کے طالب علم ہیں، اپنے طور پر گھومنا چاہتے ہیں اور وہ بے چارہ منہ بسور کر رہ گیا تھا مگر تھا قسمت کا دھنی، چند ہی منٹوں بعدجاپانی ٹورسٹوں کے ایک گروپ نے اسے اپنا گائیڈ بنا لیا۔ جاپانی گروپ اور ہمارے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا تقریباً ساتھ ساتھ ہی چل رہے تھے اور ایک دوسرے کی گفتگو بھی سنائی دے رہی تھی۔ نوعمر گائیڈ نہایت اعتماد کے ساتھ رٹی رٹائی معلومات فرفر بیان کر رہا تھا۔ ایک جاپانی نے احاطہ میں موجود خواجہ سلیم الدین چشتی کے مزار کے بارے میں پوچھا تو لڑکے کا تبصرہ کمال کا تھا، بولا:
Grave of a Saint, Chishti Sahib. No Chishti Sahib no Taj Mahal. Shahjehan builder of Taj son of Jehangir. Jehangir born with his prayer. So no Chishti Sahib, no Jehangir, no Shahjehan and no Taj.
یعنی یہ ایک بزرگ چشتی صاحب کی قبر ہے جو نہ ہوتے تو تاج محل بھی نہ ہوتا کیونکہ تاج محل کا خالق شاہ جہاں، جہانگیر کا بیٹا تھا اور جہانگیر اس بزرگ کی دعا سے پیدا ہوا تھا۔ چنانچہ نو چشتی صاحب، نو جہانگیر، نو شاہ جہاں اور نو تاج۔ جاپانی کچھ سمجھ پائے تھے یا نہیں مگر سر ضرور زور زور سے ہلا رہے تھے اور نوعمر گائیڈ کی انگریزی خوب کام دکھا رہی تھی۔ موصوف نے خواجہ سلیم الدین چشتی اور تاج محل کے درمیان جو تعلق قائم کیا تھا، بلاشبہ اچھوتا تھا۔
گائیڈ پر ہی کیا موقوف وہاں کے تاجروں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس، یونین اور اسٹیٹ منسٹرز تک کو لے لیں، اکثریت عجب لہجوں والی غیرمانوس سی زبان کو انگریزی قرار دینے پر تلی ہوتی ہے مگر مجال ہے ایسے میں انہیں کسی قسم کی سبکی محسوس ہوتی ہو اور جنوبی ایشیاء میں ہی نہیں تمام تر نان انگلش اسپیکنگ خطوں میں کم و بیش یہی کچھ ہو رہا ہے اور تضحیک تو دور کی بات اشارتاً و کنایتاً بھی کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ جنوبی ایشیاء کا حصہ ہونے کے باوجود ہمارے ہاں نہ جانے یہ روایت کیوں نہیں بن پائی؟ ہم زبان کے بنیادی مقصد یعنی ابلاغ کو اہمیت دینے کے بجائے اس کے لب و لہجہ اور نوک پلک پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک قابلیت اور معیاری تعلیم کی ایک ہی کسوٹی ہے کہ موصوف شستہ اور نستعلیق قسم کی انگریزی میں گفتگو کر سکتا ہو اور اس معیار پر پورا نہ اترنے والے اکثر و بیشتر تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں اور تو اور اعلیٰ سیاسی مناصب پر فائز شخصیات کی کارکردگی کو بھی اسی پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، معین قریشی اور شوکت عزیز کو ہمیشہ اچھی انگریزی کا بونس ملا جبکہ صدارت اور وزارت عظمیٰ پر فائز بعض انتہائی ثقہ اور مدبر شخصیات محض ماٹھی انگریزی کی وجہ سے میڈیا کی ڈارلنگ نہ بن سکیں۔ چلیں اس حد تک گوارا کہ ہم انگریزی کے سحر میں مبتلا ہیں مگر اس انداز فکر کو کیا کیجئے کہ اچھی انگریزی والے کی اگر اردو بری ہو تو اس کی لیاقت میں مزید ستارے جُڑ جاتے ہیں یعنی اسے صحیح معنوں میں لائق اور باہر کا پڑھا شمار کیا جاتا ہے۔ اپنی قومی زبان کی اس درجہ اہانت کہیں دیکھی نہ سنی۔
ایک وزیراعظم کے غیر ملکی دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بڑے صحافی نے کہا تھا ”دورہ کامیاب کیا ہونا تھا، وزیراعظم کی تو گھگھی بندھی تھی اور دو سیدھے جملے بھی ادا نہیں ہو رہے تھے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سربراہی دوروں میں اس قسم کی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہاں تو فریقین کے باہمی مفادات ہوتے ہیں اور بس، جن پر سفارتی کشاکش ہوتی ہے اور پھر ایسے دوروں کی تمام تر جزئیات پہلے سے طے ہوتی ہیں۔ معاہدے، بیانات اور مشترکہ اعلامیے وغیرہ پہلے سے تیار ہوتے ہیں،باقی سب کچھ محض رسمی کارروائی (Ceremonial) ہوتی ہے۔ کس کمرے میں ملے، کھانا کہاں کھایا، مینیو کیا تھا، سرخ قالین بچھا یا نہیں؟ یہ سب کچھ رسمی اور سطحی ہوتا ہے اور محض اس سے فریقین کے باہمی تعلقات کی گرم جوشی کو ماپنا نادانی ہے۔
البتہ ایک بات کا دکھ ضرور ہے کہ ہمارے رہنما غیرملکی دوروں میں اپنی زبان کو لفٹ کیوں نہیں کراتے؟ جبکہ باقی دنیا بین الاقوامی روابط میں اپنی زبان کو اہمیت دیتی ہے۔ عظیم چینی رہنما چو این لائی کا یہ ضرب المثل جملہ ”چین گونگا نہیں“ (China is not mute) ہر کسی کو ازبر ہے مگر ہم ہیں کہ مسلسل گونگے بنے ہوئے ہیں اور وہ بھی اردو جیسی عظیم عالمی زبان کا وارث ہونے کے باوجود جو دنیا کی تیسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے اور پھر یہ انٹرپریٹر بھلا کس مرض کی دوا ہوتے ہیں؟ چرچل دنیا کی کئی زبانیں جانتے تھے مگر غیروں کے ساتھ بات ہمیشہ انٹرپریٹر کے ذریعہ سے کی۔ کسی نے حکمت جاننا چاہی تو موصوف نے بڑی پتے کی بات کی تھی۔ ”اس سے سوچنے کا موقع مل جاتا ہے اور بات چیت پُرمغز ہو جاتی ہے“۔ البتہ ترجمانی کا یہ کاروبار بعض اوقات مہنگا بھی پڑ جاتا ہے۔ ستمبر 1910ء میں رستم زماں گاما پہلوان کا شہرہٴ آفاق دنگل لندن میں زبسکو پہلوان کے ساتھ ہوا تھا اور گاما نے محض42 سیکنڈز میں گوشت کے پہاڑ زبسکو کو چت کردیا تو کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا اور تماشائیوں کو داؤ پیچ کی باریکی پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ غیرملکی اخباری نمائندوں نے مقابلے کے بارے میں فاتح پہلوان کی رائے چاہی تو گاما نے ٹھیٹھ امرتسری پنجابی میں کہا ”میرے مولا دا کرم، کملی والی دی نظر، پیراں، فقیراں تے مرشد دی دعا، تسیں کہندے او زبسکو بڑی بلا اے، رب دی قسمیں مینوں تے کرلا جاپیا اے۔ جنہوں چُک کے میں رنگ تو باہر سٹ دتا اے“۔ یعنی ”آپ کہتے تھے زبسکو بڑی بلا ہے۔ اللہ کی قسم مجھے تو کرلا کی مانند لگا ہے، جسے بڑی آسانی کے ساتھ اٹھا کر میں نے رنگ سے باہر پھینک دیا ہے“ مترجم ان ارشاد عالیہ کا بھلا کیا ترجمہ کرتا، سو بولا: (Gama says it was very easy to defeat Zybesco) اس پر گاما نے مترجم کو کلائی سے پکڑ کر کہا ”اوئے ایہہ کیہہ کیتا ای۔ میں پنج منٹ لائے، توں ادھا وی نئیں۔ کوئی چکر تے نہیں کردتّا؟“ یعنی یہ تم نے کیا کیا؟ میں نے پانچ منٹ لگا کر بات مکمل کی تھی اور تم نے آدھا منٹ بھی نہیں لگایا، کوئی چکر تو نہیں کر گئے؟ انٹرپریٹر بے چارہ کیا جواب دیتا۔ البتہ کلائی کی ہفتہ بھر سینکائی ضرور کرتا رہا جس پر سے گاما کی گرفت کے نشان مٹتے مٹتے ہی مٹے۔
تازہ ترین