• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے ریٹرننگ افسروں نے امیدواران کو 62، 63 کے شکنجے میں کسا ہے تب سے پورے ملک میں یہ بحث انتہائی شدت اختیار کر گئی ہے کہ بانیانِ پاکستان ملک کو ”سیکولر اسٹیٹ“ بنانا چاہتے تھے۔ سیکولرازم کیا ہے؟ سیکولر ریاست کیا ہے؟ سیکولرائزیشن کے ڈسکس کا مقصد کیا ہے؟
گزشتہ دنوں انہی صفحات پر ہمارے کالم نگار دوست جناب ڈاکٹر فرقان حمید صاحب نے کہا تھا ”قائداعظم نے پاکستان کو مسلمانوں کے لیے تشکیل نہ دیا تھا۔ کٹر مذہبی نظریات کے حامل مسلمانوں اور علماء نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قائداعظم پاکستان کو”سیکولر ریاست“ بنانا چاہتے تھے۔ “ہم تاریخی حوالوں سے سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ کی تمام دستاویزات محفوظ ہیں، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کا وہ تاریخی فتویٰ بھی محفوظ ہے جو تحریک ِپاکستان کے دوران دیا گیا تھا۔ جس میں ہندوستان کو ”دارالحرب“ قرار دے کر مسلمانوں کیلئے ”دارالاسلام“ کے قیام کی ضرورت اور اس کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے حصول کیلئے مسلمانوں کو تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ فتویٰ مسلم لیگ کے قائداعظم کے حکم پر 1945ء میں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیاگیا۔ یہ تحریکِ پاکستان کی اہم ترین دستاویز ہے جس کا جواب کہیں نہیں دیا جاتا۔ اس کا مطالعہ حقیقت حال کے بہت سے پہلوؤں کیلئے کافی ہے۔ دارالاسلام کے حصول کی جدوجہد اور اس کے لیے مفتی محمد شفیع کے فتوے کو بنیاد بناکر دیکھا جائے تو یہ پوری بحث سمیٹی جاسکتی ہے۔
دارالاسلام ایک کوئی ریاست نہیں، ایک آفاقی عالمی ریاست ہوتی ہے جس کے دروازے صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمانان عالم کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ یہ ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہوتی ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودِ مدینہ سے میثاق ِمدینہ کیا تو اس میثاق میں بھی آپ کو فیصلوں کے معاملے میں ”سپریم اتھارٹی“ مانا کیا گیا بلکہ تمام تنازعات، اختلافات میں آپ کا فیصلہ اٹل تسلیم کیا گیا تھا۔ مملکت خداداد پاکستان ،ریاست ِمدینہ کے بعد روئے زمین پر اللہ کے نام پر بننے والی پہلی اور شاید آخری ریاست ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کے پُر عزم ولولوں اور پُرجوش حوصلوں پر اس کی بِنا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے اسی نظریے کے تحت اپنی جانیں قربان کی تھیں، جیسے چاہے زندگی بسر کرنا مقصد نہ تھا۔ سیکولرازم مطلب یہ ہے تمام انفرادی واجتماعی معاملات، قومی وبین الاقوامی امور، سیاست، ریاست، تجارت، سفارت، معاشرت… غرض زندگی کے ہر اہم دائرے سے مذہب کو اس طرح بے دخل کردیا جائے کہ کسی فیصلے کی بنیاد تعقل مذہبی نہ ہو، یعنی فرد اپنی ذاتی زندگی میں یا ریاست اپنی اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی فیصلہ کریں، خواہ وہ کسی معاملے سے متعلق ہو، اس فیصلے کی بنیاد کسی قسم کا تعقل مذہبی نہ ہو۔ آپ خواہ کسی دین کے ماننے والے ہوں۔ یہ دین آپ کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں حکم دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ آپ کی عقلیت اور خواہش نفس کی نص کا درجہ حاصل کرلے۔ دنیا کی اکثر مشہور لغات میں سیکولرازم کے معنی یہی لیے جاتے ہیں کہ مذہب سے آزاد ریاست کو ”سیکولراسٹیٹ“ کہا جاتا ہے۔ سیکولرازم کی تعریف ”وکی پیڈیا“ میں یوں کی گئی ہے:
"Secularism is the principle of separation of government institutions, and the persons mandated to represent the State, from religious institutions and religious dignitaries. In one sense, secularism may assert the right to be free from religious rule and teachings, and the right to freedom from governmental imposition of religion upon the people within a state that is neutral on matters of belief."
اس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے۔
امریکہ سمیت دیگر ریاستوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے وہ سیکولر ریاستیں ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی کی آزادی کی بنیاد ”مذہب“ کبھی نہیں رہا۔ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب والے اگر اپنی ریاستوں سے مذہب کو دیس نکالا دیتے ہیں، اس میں وہ حق بجانب کہلائے جاسکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس ان کی شریعت کا کوئی باوثوق مذہبی قانون نہیں ہے۔ ایک ریاست کو کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ریاست کے خدوخال کیا ہوں؟ موسیٰ یا عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی کوئی تعلیمات اس دنیا میں موجود نہیں جن کی بنیاد پر یہودی یا عیسائی دعویٰ کرسکیں جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے پاس پورا فلسفہ حیات ہے۔ یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ اس پر گواہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ قائم کرکے عملی طورپر سب کچھ عملاً کرکے بتادیا۔ جتنی سازشیں مدینہ کے خلاف ہوئیں، اس وقت جتنے دشمن مسلمانوں کے تھے، اتنے رہتی دنیا تک شاید کسی کے نہ ہوں۔ آپ نے ان سے کس تدبیر، حکمت، سیاسی بصیرت سے سب سازشوں کو ناکام بنایا۔ دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ قوم وملک کی حفاظت کی اور پھر ایک ناقابل تسخیر ریاست بناکر مسلمانوں کو پیغام دیا کہ یوں ملک وقوم کی حفاظت کی جاتی ہے۔ جہاں تک ہمارے محترم فرقان حمید کی تحریروں کا تعلق ہے، وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ جس ترکی میں بیٹھے ہیں اور آج جو ترکی دنیا کی بہترین معیشتوں میں ایک اچھی معیشت ہے، اس کی وجہ بھی وہاں کے حکمرانوں کی اسلام سے قربت ہے۔ ان اسلام پسند حکمرانوں سے پہلے جن لوگوں نے ترکی کو چلایا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی کے یہ اسلام پسند بھی بظاہر ”سیکولرازم“ کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن سب کو معلوم ہے کہ ان کی بنیاد کیا ہے؟ اسلام کے بہت سے قوانین غیرمسلموں پر لاگو نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے اسلام قبول نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی زور زبردستی نہیں اور اسلامی حکومتوں میں انہیں مکمل تحفظ بھی حاصل رہا ہے،لیکن جس نے اسلام قبول کیا، اس کے لیے ضرور اسلام کچھ ضابطے مقرر کرتا ہے ۔یہ اس کی بقاء کیلئے ہوتے ہیں، ظلم کے زمرے میں نہیں آتے۔ سیکولرازم کے علمبرداروں کو دیکھنا چاہیے اگر امریکہ وبرطانیہ کے انسانوں نے کچھ ضابطے مقرر کررکھے ہیں اور وہاں کے لوگ انہیں حرزِ جان بناتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو کیوں منع کیا جاتا ہے ؟ایک اور نکتے کی طرف آئیے! روئے زمین پر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ترانے کا اختتام خدائے ذی الجلال کے سایہ میں ہوتا ہے۔ جس ملک کا آغاز بانی پاکستان کی اس تاریخی تقریر سے ہوا جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو دو مختلف تہذیبوں، طرزِ حیات کا وارث قرار دیا گیا تھا اور مسلمانوں کے ایک الگ خطہ زمین کا مطالبہ اس تقریر کا مرکزی عنوان تھا۔ اس تقریر کا اختتام پاکستان کے قومی ترانے کے آخری مصرعے تک وسیع ہوگیا۔ پورے پاکستان پر خدا کے سائے کا یہی مطلب ہے اس ملک کا ہر کام اللہ کے بنائے ہوئے احکامات کے ذریعے ہی ہوگا جو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے،صحابہ کے تعامل، امت کے تواتر اور اجماع کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں پاکستان ایک سیکولر ملک ہے۔ اسے سیکولر ہونا چاہیے تو درحقیقت ہم بابائے قوم کی تمام تقاریر کو دانستہ طور نظر انداز کرتے ہیں اور پاکستان کے ترانے کو بھی… پاکستان اسی وقت سیکولر ملک بن سکتا ہے جب قائداعظم کی تمام تقریروں کو جلا دیاجائے اور ملک کا ترانہ تبدیل کردیا جائے، لیکن کیا یہ جلانااور ترانہ تبدیل کرنا کوئی آسان مرحلہ ہوگا؟
تازہ ترین