• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے معاملے کو تقریباً دو ہفتے گزرجانے کے باوجوداس کی تحقیقات کے طریقے پر ملک کی سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔ وزیر اعظم نے پاناما پیپرز میں مبینہ طور پر خفیہ دولت سے قائم کی گئی سمندر پار کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے اپنے اہل خانہ کے نام سامنے آنے کے ایک روز بعد ہی قوم سے اپنے خطاب میں عدالت عظمیٰ کے کسی سابق جج کے سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ کئی ججوں کی جانب سے معذرت کے بعد جسٹس (ریٹائرڈ) سرمد جلال عثمانی نے مکمل اختیارات دیئے جانے کی شرط پر کمیشن کی سربراہی پر آمادگی کا اظہار کردیا جس کے بعد حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہوگئی اور وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحق ڈار کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے گزشتہ روز ضابطہ کار کو حتمی شکل دے دی ،ماہرین کے نام بھی شارٹ لسٹ کرلئے جبکہ کمیشن کے دیگر ارکان کے انتخاب اور ٹرمز آف ریفرنس کے تعین کو اپوزیشن سے مشاورت پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ کمیشن سب کیلئے قابل قبول ہوتا تو بات آگے بڑھتی لیکن پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کو مسترد کردیا ہے۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقات ممکن نہ ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔ سید خورشید شاہ نے جسٹس عثمانی کا نام مسترد کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اگرچہ وہ نہایت قابل احترام شخصیت ہیں لیکن ان کی اہلیہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن ہیں جس کی بناء پر ان کی سربراہی میں تحقیقات مناسب نہیں۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کو مسترد کرنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ حکومت نے یہ نام عجلت میں طے کیا ہے۔انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام پر اصرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا موقف ایک ہے جبکہ حکومت کا رویہ درست نہیں۔معاملے کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہے لہٰذا حکومت کو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ دوسری جانب وزیر اعظم کے لندن میں قیام کے ضمن میں وفاقی وزراء کے متضاد بیانات عوام میں شکوک و شبہات کا سبب بن رہے ہیں اورلوگ یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کہیں دال میں واقعی کچھ کالا تو نہیں۔یہ صورت حال حکمراں جماعت کیلئے انتہائی قابل توجہ ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بندوق کی طاقت کے بل پر وجود میں آنے والی فوجی آمریتوں کے برعکس منتخب جمہوری حکومتیں اخلاقی جواز ہی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ پاناما لیکس میں پاکستان کے حکمراں خاندان کے افراد کا نام آجانے سے حکمراں جماعت کی اخلاقی برتری کو بہرحال دھچکا لگا ہے۔دنیا کے کئی ملکوں میں حکومتوں سے وابستہ ایسے افراد اسی وجہ سے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس منصب پر رہنے کا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا تھا۔پاکستان میں حکمراں جماعت کی قیادت کو بھی اخلاقی ساکھ کا یہی چیلنج درپیش ہے۔اس کی اخلاقی ساکھ کی بحالی کی واحد صورت یہی ہے کہ قطعی بے لاگ اور شک و شبہ کے ہر شائبہ سے پاک تحقیقات کے ذریعے وہ پاناما لیکس کے معاملے میں اپنی بے گناہی ثابت کردے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تحقیقات ایسے کمیشن کے زیر اہتمام ہو جس پر پوری قوم اسی طرح متفق ہو جیسے انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے بننے والے جوڈیشل کمیشن پر متفق تھی۔ یہ کمیشن چیف جسٹس کی سربراہی میں بنا تھا لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ اب ایسا نہ ہوسکے۔ تاہم اگر چیف جسٹس خود ہی اس کیلئے تیار نہ ہوں تب بھی پارلیمان کے مکمل اتفاق رائے سے غیرمتنازع اور خود مختار تحقیقاتی کمیشن قائم ہونا چاہیے ۔ ایسے متفقہ کمیشن کا فیصلہ ہی پوری قوم کیلئے قابل قبول ہوگا جبکہ مسئلے کے حل کی تمام دوسری صورتیںحکمراں جماعت کی قیادت کو اقتدار کے اخلاقی جواز سے محروم کرنے اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گی۔
تازہ ترین