• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کیمون نے کہا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کےلئے اس کی بنیادی وجوہات ختم کرے، تاکہ دنیا اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔‘‘ قارئین! اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی پوری دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مسلمان اور غیرمسلم سب ایک ہیں۔ آج ہر کوئی دہشت گردی کی مذمت کررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جب تک دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے بنیادی اسباب کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک سب کوششیں رائیگاں جا ئینگی ۔ آئیے سرسری سا جائزہ لیتے ہیں کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ان اسباب میں ناانصافی، نسلی امتیازات، جہالت، غربت، طبقاتی تفریق، بد عنوانی، بیڈ گورننس، کرپشن، بیروزگاری، منشیات، استعماری پالیسیاں، سامراجی عزائم، ہوس ملک گیری، دُہرے معیار، دوغلے پیمانے اور ظلم شامل ہے۔ یہ پندرہ اسباب ایسے ہیں جو دنیا میں دہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں اور انتہا پسندی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ناانصافی ایک ایسا عمل ہے جو لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کا سبب ہے۔ جس معاشرے میں عدل قائم ہوجائے وہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے اور جب دنیا میں ناانصافی شروع ہوجائے تو پھر پرامن دنیا بھی جنگل بن جاتی ہے، جس میں کمزور کے پاس جب اپنے دفاع کیلئے کچھ نہیں ہوتا وہ تہیہ کرلیتا ہے کہ نہ خود جئے گا اور نہ ہی دوسروں کو جینے دے گا۔ عالمی طاقتیں اس وقت کمزور قوموں اور غریب ممالک کے ساتھ ہر قسم کا ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں اور ان کے دہرے معیار اور دوغلی پالیسیاں ہیں۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ 2003ء میں امریکہ کے سابق صدر بش نے دنیا بھر میں عیسائیت کی ترویج کیلئے مشنری تنظیموں کو فنڈ فراہم کرنے کیلئے وہائٹ ہائوس میں ’’Faith-Based and Community Initiatives‘‘ نامی ڈپارٹمنٹ قائم کیا تھا۔ اس کے ڈائریکٹر ’’جم ٹووی‘‘ کو امریکی سوسائٹی کو کٹر عیسائی مذہبی معاشرے میں تبدیل کرنے کا ہدف سونپا گیا تھا۔ انہوں نے 10 ہزار 5 سو 18 عیسائی تنظیموں کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز فراہم کئے تھے۔ جب بش عیسائیت کی ترویج کیلئے وہائٹ ہائوس میںخصوصی ڈیپارٹمنٹ قائم اور عیسائی مذہبی تنظیموں کو 40 ارب ڈالر دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو روادار کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی مال دار شخص کسی مدرسے کی سرپرستی کرے تو وہ رواداری کادشمن! یہ تفریق کیوں؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے معاشرے کو مذہبی شدت پسند، تنگ نظر اور انتہا پسند بنانے کیلئے کوشاں نہیں؟ یہ کیسی ناانصافی ہے اگر کوئی ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر لکھے یا بولے تو وہ قابلِ گرفت ہے لیکن اگر کوئی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی معززترین ہستیوں کے بارے میں شرانگیزی کرے تو اس کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ مغرب کی یہی دوغلی پالیسی ہے جو ان کیلئے نفرت اور عداوت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کا یہی دہرا معیار ہے جوان کے رواداری کے دعوئوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ اب آجائیں غربت و جہالت کی طرف کہ یہ بھی دہشت گردی کا ایک بڑا سبب ہے۔ ڈی ایٹ ممالک اور دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے والے G-20 ممالک اس کا برملا اعتراف متعدد بار اپنے سربراہی اجلاسوں میں کر بھی چکے ہیں کہ دہشت گردی کا ایک سبب غربت بھی ہے۔ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے مشترکہ طور پر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امیر ترین ممالک تیسری دنیا کے لوگوں سے کئے گئے امداد کے وعدے پورے کریں، ورنہ وہاں کے مفلس افراد دنیا کا جینا مشکل کردیں گے۔ سرمایہ دار اور طاقتور ممالک کی ستم ظریفی تو ملاحظہ کیجیے! ایک طرف تو مہلک ہتھیار بنانے پر اربوں کھربوں صرف کررہے ہیں تو دوسری طرف پوری دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔ ان میں سے 80 کروڑ انسانوں کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ ان میں سالانہ 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کا سار ازور اس پر ہے کہ ان کی فوجی طاقت میں کمی نہ آئے اور آمدنی بڑھتی ہی چلی جائے۔ وہ غریبوں کی حالت زار پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ دنیا اسلحے کی تیاری پر جتنی رقم خرچ کرتی ہے اس کے صرف ’’ایک فیصد‘‘ سے وہ تمام بچے اسکول جاسکتے ہیں جنہیں غربت کے باعث تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ ایک جنگی طیارے پر جتنی لاگت آتی ہے اس سے کئی اسپتال اور اسکول بنائے جاسکتے ہیں۔ غریبوں کیلئے گھر اور مکان تعمیر ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں بچوں کی تعداد تقریباً دو ارب بیس کروڑ ہے۔ ان میں سے ایک ارب بچے غربت کی آغوش میں پل رہے ہیں۔ پوری دنیا میں روزانہ ہر 3.6 سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی انسان بھوک کی وجہ سے مرتاہے۔ ترقی یافتہ ممالک فخریہ اعلان کرتے ہیں ہم ہر سال غریب ممالک کو اتنے کروڑوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں۔ وہ دعوے ضرور کرتے ہیں، پر عملی اقدام نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکہ اور یورپ کے باسی ہر سال نشےاور سگریٹ سلگانے پر 500 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ اس میں سے اگر ہر سال 200 ارب ڈالر مل جائیں تو دنیا سے غربت، بھوک، جہالت، پانی کی کمی اور بیماریوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں امن قائم کرنے کے نام پر اور مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اربوں کھربوں خرچ کرتے ہیں، پرانہیں تیسری دنیا کے ان کروڑوں غریبوں کاخیال نہیں آتا ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ امیر کبیر ممالک کس منہ سے خود کوعالمی تھانیدار کہتے ہیں؟اسی طرح منشیات اور کرپشن کا پیسہ بھی دہشت گردی میں استعمال ہورہا ہے۔ جن ممالک میں انصاف ہے، شفافیت ہے، منشیات کی اسمگلنگ ، بدعنوانی اور کرپشن نہیں ہے، گڈگورننس ہے، طبقاتی تفریق نہیں ہے، بے روزگاری نہیں ہے، بے روزگاروں اور غریبوں کیلئے بھی سہو لتیں ہیں تو وہاں پر دہشت گردی نہیں ہے۔ آپ دہشت گردی کا شکار ممالک اور دہشت گردوں کا بائیو ڈیٹا نکال کردیکھ لیں کہ کن کن علاقوں، قوموں اور ممالک کے لوگ دہشت گردی میں سب سے زیادہ ملوث ہیں؟ آخری بات جو سب سے اہم ہے، وہ ہے عالمی طاقتوں کی استعماری پالیسیاں اور دہشت گردی کی تعریف۔ عالمی سطح پر اب تک دہشت گردی کی جامع تعریف پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جسے چاہے دہشت گردی کہہ دیتا ہے اور جسے چاہے امن کا نام دے دیتا ہے۔اصل بات یہی ہے کہ دہشت گرد کسے کہا جائے؟ مذہبی انتہا پسندی کا اطلاق کن پر ہو؟ یہ سب وہ پہلو ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کرنے اور مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت پہلے بھی رہی ہے اور اب اس سے زیادہ ہے۔ در حقیقت حق خودارادیت کی جدوجہد اور مبینہ دہشت گردی کی تعریف کے متعین کرنے اور اس کیلئے بنیادی اصول بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ سامراجی اور جارحیت پسند طاقتیں ہیں جنہوں نے دوسری اقوام پر جبراً قبضہ جمارکھا ہے۔ اس سے چھٹکارے کیلئے دنیا کے مختلف خطوں میںتحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادی کی اس جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حریت پسندوں کو دہشت گرد باور کرایا جاتا ہے جبکہ کئی ممالک آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کوجائز قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر حق خود ارادیت کی جدوجہد اور دہشت گردی میں فرق تسلیم کرلیا جاتا ہے تو یہ بات لازمی ٹھہرے گی کہ ان طاقتوں کو مقبوضہ علاقے واپس کرنا ہوں گے، اس لئے وہ اس بحث کو نمٹانے پر کبھی سنجیدگی سے تیار نہیں ہوتیں۔ اس پس منظر میںاقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے درست بات کہی ہے کہ جب تک نسلی امتیاز، ظلم و ستم اور ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، بے روز گاری وجہالت کم نہیں ہوجاتی، دوغلی پالیسیاں اور دہرے معیار ختم نہیں ہوجاتے اس وقت تک دنیا سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
تازہ ترین