• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اپنی حالیہ انتخابی مہم کے دوران سندھ میں متعدد جلسہٴ عام منعقد کرچکے ہیں‘ جہاں پیپلز پارٹی کے رہنما بھی کوئی بڑا جلسہ نہیں کر سکے ہیں حالانکہ سندھ کو پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے لئے سیاسی میدان خالی ہے اور سندھ کو خاص طور پر اُنہوں نے فتح کرلیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے اس الزام کو میاں نواز شریف تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ طالبان کے پیدا کردہ ماحول میں وہ بلاخوف و خطر سیاسی جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ اگلے روز ٹھٹھہ میں ایک جلسہٴ عام سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی پر تنقید کی اور کہا کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی صفر ہے‘ اس لئے وہ میدان سے غائب ہے۔ طالبان وزیراعظم کی بات کرنے والے پہلے لوگوں کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے نزدیک پیپلز پارٹی اور دیگر لبرل اور ترقی پسند جماعتوں کو طالبان یا انتہا پسند گروہوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ اُنہیں اس بات کا زعم ہے کہ اُن کی ”بہترین سیاست اور اعلیٰ کارکردگی“ کی وجہ سے میدان سیاست خالی مل گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جن سیاسی مغالطوں کا شکار ہیں‘ ضروری نہیں کہ عوام بھی اُن مغالطوں کا شکار ہوں۔ 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بے دردی سے قتل کیا گیا‘ اس واقعے کے بارے میں میاں نواز شریف کیا کہیں گے کہ یہ پیپلز پارٹی کا ڈرامہ تھا؟ آج اگر صدر آصف علی زرداری اپنے بچوں کو باہر نہیں نکال رہے تو اُن کا یہ فیصلہ بلاجواز نہیں ہے۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے والی قوتیں کون ہیں اور اُن کا آپس میں کس قدر وسیع گٹھ جوڑ ہے۔ میاں نواز شریف اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہوں گے کہ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں پیپلز پارٹی نے بھی حصہ لیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی حصہ لیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تحریک میں بھی پیپلز پارٹی کے کارکنان کا خون بہایا گیا۔ راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے استقبالی کیمپ پر بم دھماکا ہوا اور 20 سے زائد کارکنان شہید ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) والے پرویز مشرف دور میں جلسے بھی کرتے رہے اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اُنہوں نے لانگ مارچ بھی کیا لیکن اُن کے جلسے جلوسوں پر ایک پتھر بھی نہیں پھینکا گیا۔ اس ایک مثال کو سامنے رکھیں تو فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ایک ہی مقصد کے لئے چلائی جانے والی سیاسی تحریک میں پیپلز پارٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی اور مسلم لیگ (ن) آزادانہ سرگرمیاں کیوں کرتی رہی؟ لہٰذا میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا کہ دہشت گردی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور بہتر کارکردگی کی وجہ سے میدان سیاست اُن کے لئے خالی ہوگیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست کے حقیقی تضادات اور عوام کے مزاج سے قطعی طور پر ناآشنا ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم محمد امین فہیم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی جلسے کرکے لوگوں کو مروانا نہیں چاہتی اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح بلاول کو کھونا نہیں چاہتی۔ اُن کی یہ بات بے معنی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی تو اپنے دور حکومت میں بھی جلسے منعقد نہیں کرسکتی تھی۔ یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کو گڑھی خدا بخش میں پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر طے شدہ جلسہ منسوخ کرنا پڑا۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بھی طویل عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ بڑی تعداد میں اُس کے رہنما‘ کارکنان اور ہمدرد دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ایم کیو ایم بھی کراچی میں جلسے نہیں کرسکتی ہے۔ اُس کے دفاتر کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس صورتحال کو اگر میاں محمد نواز شریف اپنی ”سیاسی فتح“ سے تعبیر کررہے ہیں تو یہ بات انتہائی افسوسناک ہے۔
اس وقت تین صوبوں میں انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں اگر میاں محمد نواز شریف اور عمران خان جلسے منعقد کررہے ہیں تو اُنہیں اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ افسوس کا اظہار کرنا چاہئے کہ اُنہیں انتہا پسندوں کی صف میں شامل کیا جارہا ہے۔ جہاں تک کارکردگی کی معاملہ ہے‘ میاں نواز شریف کی کارکردگی پر عمران خان تنقید کررہے ہیں۔ یہ صرف تنقید نہیں ہے بلکہ عمران خان نے اُن علاقوں میں اپنی سیاسی گرفت زیادہ مضبوط کرلی ہے‘ جو پہلے میاں نواز شریف کا سیاسی قلعہ تصور کئے جاتے تھے۔ عمران خان نے میاں نواز شریف کے حامیوں کو توڑ کر اپنا حامی بنالیا ہے اور میاں نواز شریف کے سیاسی قلعہ میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ عمران خان نے اُن علاقوں میں نہیں گھس سکے ہیں‘ جہاں پیپلز پارٹی مضبوط ہے اور خود میاں نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کے حلقہٴ اثر کو نہیں توڑ سکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ووٹرز نے اُن کی کارکردگی کو مسترد کردیا ہے اور خود میاں نواز شریف اپنے سیاسی قلعہ پنجاب میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اُن کی کارکردگی کا بھانڈا تو پھوٹ گیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف اپنی سیاسی طاقت کے مراکز کا دفاع کریں۔ سندھ کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تو مسلم لیگ (ن) کے 30 فیصد اُمیدوار بھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں وہ کس بنیاد پر پیپلز پارٹی کو سندھ میں للکار رہے ہیں۔ عمران خان کی تو سندھ پر توجہ ہی نہیں ہے۔ تین چھوٹے صوبوں کے عوام کے ذہنوں میں یہ بھی سوال ہے کہ پنجاب کے لیڈر اگر عمران خان اور نواز شریف ہیں تو کیا پنجاب کے لوگ پاکستان کے سیاسی بحران کا اس طرح ادراک نہیں کررہے‘ جس طرح دیگر صوبوں کے لوگ کررہے ہیں۔
کراچی ایئر پورٹ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو کراچی میں سیاسی جماعتوں کی عسکری ونگ ختم کردیں گے۔ اگر وہ ایسا کرسکیں تو اچھی بات ہے لیکن اس وقت سب سے بڑا سوال مسلم لیگ (ن) کے مخالفین یہ کررہے ہیں کہ کیا طالبان مسلم لیگ (ن) کا عسکری ونگ ہے یا مسلم لیگ (ن) طالبان کا سیاسی ونگ ہے؟ اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ طالبان کے صرف سیاسی ونگ انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ طالبان دائیں بازو کی تمام جماعتوں کا عسکری ونگ ہے۔ میاں نواز شریف نے یہ کبھی نہیں کہاکہ وہ اقتدار میں آئے تو طالبان کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔ ان طالبان نے پاکستان کی مسلح افواج پر حملے کئے، افسروں اور جوانوں کو شہید کیا۔ معصوم بچوں‘ عورتوں‘ نوجوانوں اور بزرگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اُسامہ بن لادن سے نواز شریف کی طرف پیسوں کی وصولی ثابت ہوچکی ہے۔ طالبان سے اُن کے گہرے تعلقات بھی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ طالبان نے پاکستانی معاشرے سے ترقی پسند اور روشن خیال قوتوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کیلئے سالہا سال سے خوف و دہشت کا جو ماحول پیدا کررکھا ہے‘ کیا یہی میاں نواز شریف کی کارکردگی ہے؟
تازہ ترین