• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جلا وطن ن لیگی قیادت کے لئے قدرت کی طرف سے اشارہ تھا، وارننگ تھی، نوٹس تھا، سرزنش تھی، چتاونی تھی لیکن انہیں سمجھ نہیں آئی… طویل جلا وطنی کے بعد پھر سے اقتدار میں آجانا قدرت کی طرف سے اک اور پیغام تھا لیکن”فرسٹ جنریشن رائیلٹی“ قدرت کا یہ خطرناک پیغام بھی نہ سمجھ سکی کیونکہ یہ اس پیغام کو”ڈی کوڈ“ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ یہ اقتدار انعام نہیں دراصل امتحان تھا لیکن انہوں نے عجز و انکساری اختیار کرنے، مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے، عوام کے ا ندر صحیح معنوں میں گھل مل جانے کی بجائے خود کو”مہا کلاکار“ اور ”اتم ترین فنکار“ سمجھتے ہوئے تکبر و رعونت کا رسوائی بھرا انداز اختیار کیا۔ان کی عوام بارے حقارت اور فرعونیت کی انتہاء کا میں خود عینی شاہد ہوں کیونکہ ہمارا”بیلی پور“ ان کے”جاتی عمرے“ سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے انہوں نے ایکٹروں پر مشتمل سڑک پر رکاوٹیں اور پولیس کھڑی کرکے عوام کا رستہ روکا۔ عوام کے خون پسینے کی کمائیوں پر پلنے والی پولیس عوام کا ہی رستہ روکنے پر مجبور کی گئی۔ یہ تھی جلا وطنوں کی اپنے عزیز ہم وطنوں کو پہلی سلامی جو سیکورٹی کے نام پر عوام کی سرعام توہین و تذلیل کے مترادف تھی اور یہی کچھ انہوں نے اپنی دیگر رہائش گاہوں پر کیا۔ مہذب دنیا کے کسی معمولی سے ملک میں بھی کوئی حکمران ا یسی بدتمیزی اور انکروچمنٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن”روشن پاکستان“کے علمبرداروں کے لئے یہ معمول کی کارروائی تھی کہ اگر عوام کو ذلیل نہ کیا تو بھلا اقتدار کا کیا فائدہ؟ سڑکوں پر یوں نکلتے جیسے دھرتی ماں پر احسان کررہے ہوں، کشمیر فتح کرکے آئے ہوں یا دلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے جارہے ہوں۔ پھر دوسرا راؤنڈ شروع ہوا۔ اڈہ پلاٹ رائے ونڈ روڈ سے مل گاؤں تک والی چند کلو میٹر پر مشتمل سڑک پر ایک طرف ان کے محلات دوسری طرف سکول، ہسپتال اور کالج ہے۔ ساری سڑک پوری طرح ادھیڑ کر اڈہ پلاٹ سے اپنی جاگیر تک سیون سٹار سڑک چشم زدن میں بنوا کر باقی آدھی دو سال سے زیادہ عرصہ تک بدترین حالت میں یو نہی چھوڑ دی گئی کیونکہ یہ چاہتے تھے کہ عوام مجبوراً اس سڑک کا استعمال ترک کردیں کیونکہ ساری سڑک پر قبضہ ناممکن تھا۔ کسی نے اتنا بھی نہ سوچا کہ اسی سڑک سے بچے سکول اور مریض ہسپتال تک پہنچتے ہیں۔ یہ سفاکی و سنگدلی کی انتہاء تھی۔ میرے پاس ملتان روڈ والا آپشن تھا سو میں نے اس رستہ پر ہی لعنت بھیج دی لیکن ان عوام کی اذیت پر کڑھتا رہا جن کے پاس اس سڑک کے استعمال کے علاوہ اور کوئی رستہ ہی نہ تھا۔ ان کے مقامی ایم این اے وغیرہ کی جرات نہ تھی کہ انہیں بتاتے کہ عوام ان کے لئے کیسے کیسے قصائد کہہ رہے ہیں اور ان سے نفرت کا گراف کہاں پہنچ چکا ہے۔
مل چوک کی سن لیں یہ سڑک سندر سے سندر انڈسٹریل سٹیٹ کو جاتی ہے جو چودھری پرویز الٰہی کا شاہکارپراجیکٹ ہے۔ اس سڑک سے چالیس چالیس فٹ کے کنٹینرز دن رات گزرتے ہیں اور تھوک کے حساب سے گزرتے ہیں۔چار چار فٹ کے کھڈے معمولی بات، ایسی ناہموار سڑک کہ موت کا کنواں بھی مات، چنگ چی ٹائپ عوامی سواریوں پر خلق خدا خصوصاً بچے گزرتے ہیں تو میں یہ سوچ کر ہی کانپ اٹھتا ہوں کہ اگر ایسی ناہموار سڑک پر خدانخواستہ کبھی کوئی کنٹینر دائیں بائیں الٹ گیا تو بنے گا کیا؟ کیسا قتل عام ہوگا؟ لیکن مجال ہے جو پانچ سال تک ان میں سے کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ پچھلے دنوں اس سڑک پر ووٹ مانگنے نکلے تو سنا ہے سابق خادم اعلیٰ نے اس پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگلی باری اس سڑک کو چوڑا بھی کرینگے اور تعمیر بھی کرینگے۔ اللہ جانے یہ سچ ہے کہ جھوٹ، میں نے تو مقامی لوگوں سے سنا تو پوچھا… ”اگلی بار کے لئے کیا خیال ہے؟“ کوئی کسی مجبوری، مفاد یا لالچ کے لئے انہیں ووٹ دے تو علم نہیں، کم از کم ہم بے غیرت نہیں کہ دوبارہ یہ حماقت کریں“
سچ یہ ہے کہ ان کے نام نہاد تعمیری کاموں کے پیچھے بھی تخریبی سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ کہاں فیروز پور روڈ پر اربوں روپیہ کی غرقابی اور کہاں سندر رائے ونڈ یا مانگا رائے ونڈ روڈ جیسے کھنڈر۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ مانگا رائے ونڈ روڈ سنی سنائی بات ہے کیونکہ میرا اس طرف کبھی جانا نہیں ہوا۔ باقی بداعمالیوں کا میں چشم دید گواہ ہوں لیکن کب تک؟
وہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور اس کی لاٹھی پر بھی سائیلسنر لگا ہوتا ہے، رسی دراز ہوتی ہے لیکن خضر کی عمر جتنی نہیں اور اب محسوس یوں ہوتا کہ دیری ختم… لاٹھی حرکت میں آچکی اور رسی دراز کرنے والی قوت نے رسی کھینچنی شروع کردی کہ سیاستدان پھانسیوں اور جلا وطنیوں سے نہیں سیاسی طور پر ہی ختم ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ شروع ہوچکا۔ عمران خان کی سیاسی آندھی اس سزا کا آغاز ہے جو آسمانوں پر لکھی جاچکی ۔
دولت، طاقت، تجربہ، شہرت، حواری درباری کچھ کام نہ آئے گا کہ یہ تو نہ تین میں نہ تیرہ میں، فقط تیزی سے سکڑتی ہوئی جی ٹی روڈ پارٹی کہ بے تحاشہ دولت، بے انداز طاقت، بے کراں تجربہ، بے بہا شہرت اور بے حساب حواری، درباری اور لشکر تو نپولین بونا پارٹ جیسے جنیئس کے کام نہ آئے ۔
انسانی تاریخ کا لازوال کردار کا رسیکا کا نپولین دو ٹکے کے معمولی اور گمنام ترین خاندان کا پستہ قد آدمی تھا۔ نہ دولت نہ طاقت نہ تجربہ، نہ شہرت نہ کوئی سنگی ساتھی لیکن رب مہربان ہوا تو اسے زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچادیا، دنیا آگے لگائی اور فرانس کا بادشاہ بن گیا لیکن پھر…جب دولت، طاقت، تجربہ، شہرت اور عظیم لشکر اس کے ساتھ تھے تو وہ سب کچھ گنوا کر سینٹ ہیلنا کا قیدی قرار پایا ۔
’ن“ کی صفوں میں سہم پھیلا ہے، بھگڈر مچی ہے، اک مصنوعی اور میڈیا میڈ تاثر کے تحت چل رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ سیاسی سلطنت”فالٹ لائن“ پر ہے اور یہ بارودی سرنگوں پر پاؤں رکھ چکے، قدم اٹھاتے ہی دھماکہ قدم بڑھاؤ!
پہلے اس نعرہ کا اجارہ تھا”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا“
رب نے دنوں کے اندر اندر دل اور دن پھیر دئیے اور اب اس نعرے کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ دیکھو دیکھو کون آیا
شیر کاشکاری آیا
اجارہ تو کب کا ٹوٹ چکا…گیارہ مئی کو دیکھیں کون کون نو دو گیارہ ہوتا ہے!
تازہ ترین