• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لبنیٰ چوہدری نے پی پی پی کے لیے اپنی کوششیں تن من دھن سے جاری رکھیں۔ پچھلے 5برس میں بھی جب پی پی پی کی سرکردہ لیڈر شپ اپنے ورکرز کو بہلائے، نجانے کن خوابوں کی تکمیل میں مشغول رہی۔ لبنیٰ چوہدری اور اس جیسے ورکرز گلی گلی، شہروں ، قصبوں، دیہاتی علاقوں ، اقلیتی بستیوں میں ہیومین رائٹس کے پلیٹ فارم پر لوگوں کو قائل کرنے کی کوششوں میں مشغول رہے کہ ان کی دیکھ بھال کرنے اور ان کی بات سننے والی پارٹی صرف اور صرف پی پی پی ہے۔ لبنیٰ چوہدری ایک وکیل ہے کوئی کم پڑھی لکھی لڑکی نہیں لیکن آج خود اسکو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں دوقت کا سامنا ہے۔ لاہور جو کبھی پی پی پی کا گڑھ تھا آج پی پی پی کا نام لیوا چند لوگوں کے سوا یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ لاہور کی نیشنل اور صوبائی سیٹیں جوکبھی پی پی پی کے نام ہوا کرتی تھیں اب سوائے ایک سیٹ کے یعنی این اے 130 سے ثمینہ خالد گھرکی کے سبھی علاقوں کے ووٹر پی پی پی کا نام سننے کے بھی روا دار نہیں۔ لاہور کے حلقے این اے 130 سے الیکشن لڑنے والی ثمینہ گھرکی کے لیے یہ سیٹ آسان نہیں ہے۔ وہ پی پی پی لاہور کی صدر بھی ہیں لیکن خود اپنی سیٹ پر سخت مقابلہ دیکھنے کے بعد ان کی توجہ اپنی سیٹ بچانے پر ہے۔ پنجاب پی پی پی کے صدر میاں منظور وٹو ہیں اور اگرچہ انہوں نے اپنی بیٹی اور بیٹے کے لیے بھی ٹکٹ لے رکھا ہے لیکن ان کے لیے بھی اپنی سیٹ بچانا مشکل ہے۔ راوٴ اجمل کے مقابلے میں ان کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ ایسے میں ان کی بیٹی اور بیٹا کیا لڑیں گے۔ منظور وٹو اس مشکل کو بھانپتے ہوئے خود ایسے الجھے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ پنجاب کی باقی نشستوں کیلئے ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں لیڈروں کو اپنے ورکرز کی بھی کیاقدر اور فکر۔
حلقوں کے امیدوار متوقع شکست کو دیکھ کر خود ہی الیکشن میں ایسے حصہ لے رہے ہیں کہ جیسے انہوں نے یہ جنگ پہلے ہی ہار دی ہے۔ پی پی پی کے ورکرز سے بات کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ نہ تو پارٹی ان کے امیدواروں کو حلقوں میں خرچ کرنے کیلئے کوئی پیسے دے رہی ہے اور نہ ہی امیدوار اپنے حلقوں میں پیسے خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ اس وقت ملکی سطح پر جن دو پارٹیوں کو بڑی پارٹیاں قرار دیا جارہا ہے اور ان کے درمیان سخت یا کانٹے کے مقابلے کی بات ہو رہی ہے اس میں پی پی پی کا نام نہیں بلکہ یہ دو بڑی پارٹیاں اب ن لیگ اور تحریک انصاف ہیں۔
جہاں ہم کچھ حلقوں کی سیاست کا ذکر کررہے ہیں تو کبھی ملتان بھی پی پی پی کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ضمنی انتخابات میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے نے واضح کامیابی حا صل کی تھی لیکن اس وقت ملتان کی 6کی 6سیٹیں پی پی پی کیلئے مشکل بنی ہوئی ہیں۔میڈیا نے لوگوں کو اتنا با شعور کردیا ہے کہ اب وہ کافی حد تک برادریوں اور رشتہ داریوں کی سطح سے اٹھ کر سوچنے لگے ہیں۔ ایسے میں کمر توڑ مہنگائی ، بجلی کی کمیابی اور پی پی پی کی بیڈ گورننس نے پی پی پی کیلئے صورتحال خاصی خراب کر دی ہے۔ میڈیا پر پی پی پی اپنی کیمپین چلانے کے لیے بھٹو اور بے نظیر کی شہادت کا ذکر کرکے جو مقاصدحاصل کرنا چاہ رہی ہے وہ حاصل نہیں ہورہے ۔ ن لیگ کے خلاف پروپیگنڈہ بھی غیر موثرہے۔پی پی پی کراچی، خیبر پختوانخوا ہ وغیرہ میں جلسے کرنے سے گریز اں ہے کہ اس کے امیدواروں پر قاتلانہ حملے اور بم دھماکے ہوچکے ہیں لیکن انتخابی حلقوں میں خاص طور پر پنجاب میں جس بے دلی سے اس کی کیمپین جاری ہے وہ بہت مایوس کن ہے۔ پی پی پی کیلئے یہ ایک لمخہ فکریہ ہے اگر ٹکٹوں کی تقسیم اسی طرح عذرا پیجہو، فریال تالپور اور پی پی پی کے دوسرے وڈیروں کے ہاتھ میں رہی توبچے کچھے ورکرز بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ پی پی پی کی صورتحال ایسی کیوں ہے اس حوالے سے میں ذیشان حسین کا ایک خط شامل کررہا ہوں آپ بھی پڑھیے اور دیکھئے کہ یہ زوال کیوں کر آیا۔
محترم جناب عبدالروٴف صاحب۔ اس خط کو لکھنے کی تحریک دکھ سے نہیں بلکہ تشویش سے ملی اور یہ تشویش ہے پاکستان پیپلزپارٹی کے شعوری طور پر خود کو عوام سے دور کر لینے پر، اے این پی کے خلاف قتل و غارت پر اور ایم کیو ایم کے خلاف ممکنہ محاذ آرائی پر۔اس ملک میں شہری و انسانی آزادی ، برداشت، تمدنی اقدار کے فروغ، معاشی مساوات اور عام آدمی کے حقو ق کی بات کرنے کا رواج توخیر سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے انہدام کے بعد ہی لد گیا تھا کیونکہ بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی گھرانون نے این جی اوز چلانے کا بزنس سنبھال لیا اور فرد کی آزادی کا خواب مخض ایک نعرہ مستانہ بن کر رہ گیا ۔ اس سب کے باوجود بھی پیپلزپارٹی ایک ایسی جماعت تھی جو تھیچر ازم (اکنامک لبرل ازم) کی کو گود میں بیٹھ جانے کے بعد بھی خود کو عام آدمی کے مسائل کے ساتھ جوڑے رکھتی تھی۔لیکن پچھلے پانچ سالہ دور اقتدارمیں کرپشن اور بے حسی (عام آدمی کے مسائل سے)کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ خدا کی پناہ!عوام اور خاص طور پر پنجاب کے عوام اسکے کھوکھلے نعروں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور کرپشن کی کہانیوں سے ایسے تنگ آ ئے کہ خود کو پیپلزپارٹی کا ووٹر کہنے والے بھی شرمانے لگے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ اگر ووٹر نالاں ہوا تو پارٹی رہنما بھی راستہ بھول گئے۔ کہیں ہم بے نظیر بھٹو کو دیکھتے تھے جو لاہور آنے کے بعد (2007میں)سب سے پہلء ان پارٹی روکرز کے گھر تعزیت کرنے گئیں جو سانحہ کار ساز میں لقمہ اجل بن گئے تھے اور کہاں زرداری صاحب لاہور اپنے نئے محل کا افتتاح کرنے یوںآ ئے جیسے ان کی رعایا کیلئے یہ محل ہی دکھوں کا اکیسر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے خود کو پنجاب میں یوں کارنر کرلیا کیسے سلمان تاثیرکی موت پر خود کو لاتعلق کرلیا تھا یا پھر یوں جیسے سیلاب کے ستائے عوام کے کرب سے روگرداں ہوگئے تھے۔ بقول راشد
خداوند بن کر خداوٴں کی مانندہے روئے گرداں۔۔۔
آپ یقین کیجیے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس الیکشن لڑوانے کے لیے امیدوار تک نہیں تھے۔ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب اپنی سیاسی شعبدہ بازی سے پچاس سے پچپن سیٹیں حاصل کرلیں گے مگر ایک نظریہ ہے جو مرجائے گا ، ایک اعتماد ہے جو کھو جائے گا، ایک پہچان ہے جو چھن جائے گی، ایک روایت ہے جو کچل دی جائے گی اور یہ سب ہوگا انتہا پسندی کے اس عفریت سے پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ اس وقت معاشی ضرورتوں کے بعد اھر اس معاشرے کا تانا بانا کسی کے ہاتھوں ادھیڑے جانے کا خطرہ ہے تو وہ ہے ایک انتہا پسند مائنڈ سیٹ جس کے سامنے ضرورت تھی کھل کر نظریاتی طور پر سامنے آنے کی، معاشر ت اور معاش کے نئے آدرش تلاش کرنے کی، ذھنی طور پر پراگندہ اذہان کی نظریاتی سطح پر تطہیر کی، ترقی ،روزگار مہیا کرنے کے اعتماد کی نہ کہ پرانے نعروں سے دل بہلانے کی ۔ٹی وی اشتہاروں سے اگر عوام کا اعتماد جیتا جاتا تو بھٹو کال کوٹھریوں میں اور بے نظیر سڑک پر نہ شہید ہوتیں۔
تازہ ترین