• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخباری اطلاع کے مطابق مصر سے چینی درآمد کی جا رہی ہے. جس کے بعد چینی کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ اس خبر نے ایک جھٹکے کے ساتھ بالکل فلمی انداز میں ماضی میں پہنچا دیا۔ جب 70 کی دہائی تک راشن کارڈ کے ذریعے چینی خریدی جاتی تھی۔ پھر 80 کے مارشل لاء نے اعلان کیا کہ ہم گنے کی پیداوار میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ اور پھر اس خود کفالت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر سال بڑی شان سے گنے کی امدادی قیمت (support price) کا اعلان کیا جاتا تھا اور ہے تاکہ کاشتکار زیادہ سے زیادہ گنا اگائیں۔ اور پھر دو ہزار کے مارشل لاء میں معاشی ترقی کے نام پر شوگر انڈسٹری کے لئے خوب لائسنس دیئے گئے کہ محمود و ایاز سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ نہ کوئی لیگی بچا نا پی پی پی کا، نا ہی قاف لیگی اور نہ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف گندم کی کاشت سے پہلے گندم کی وصولی/ خریداری کی قیمت (procurement price)کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ جس کے بعد کاشتکار اپنی فصل میں اضافے کا ہی سوچتے ہیں اور پیداوار کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات حیران کن ہے کہ جب یہ گندم اور گنے کھیتوں سے نکل کر مل مالکان کے پاس پہنچتے ہیں تو ایسا کیا ہوجاتا ہے کہ ان کی کمی ہوجاتی ہے؟ اچانک ملک میں ان کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کیوں ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی وجہ گنے اور گندم کی پیداوار میں کمی ہے۔ تو پھر اس کا زیادہ نقصان ان چینی اور آٹے کی ملوں کے مالکان کو ہونا چاہیے ۔ اور ان ملوں اور صنعتوں کو۔بند ہوجانا چاہیے ۔ جیسے 1993 کے کپاس کی فصلوں پہ "ٹڈی دل" کے حملے کی وجہ سے ہوا تھا کہ پہلے اس حملے سے کپاس کی فصل بری طرح متاثر ہوئی، پھر پیداوار میں شدید کمی کی وجہ سے صنعتی پیداوار کی شرح نمو منفی رہی تھی، ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بے انتہا کمی ہوئی تھی جس کے بعد بہت ساری صنعتوں نے اپنے آپ کو بیمار صنعت (sick industry) قرار دے کر بند کردیا تھا۔ لیکن ابھی تو ایسی کوئی خبر نہیں ہے۔ پھر چینی اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ کس لئے؟ حالت یہ ہے کہ چینی اور آٹے کی قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ یہ چینی جو مصر سے درآمد کی جا رہی ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مصر ملک ( پاکستان ) کے اندر منتقل ہوگیا ہو۔ کیونکہ ایسے بھی بڑے واقعات ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں کافی بڑے پیمانے پر صرف "کاغذی طور" پر چینی برآمد ہوتی ہے اور پھر "کاغذی طور" پر چینی درآمد بھی ہو جاتی ہے۔ یعنی گوداموں میں ذخیرہ اندوزی کے لئے رکھی گئی چینی پہلے بظاہر برآمد ہوجاتی ہے۔ اور پھر انہیں گوداموں میں رکھے رکھے جب ملک میں کمیابی (shortage) کی وجہ اس کی قیمت میں خاطر خواہ (targeted) اضافہ ہوجاتا ہے۔ تو پھر اسے گوداموں سے درآمد (import) کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ نوید عوام کو سنائی جاتی ہے کہ اب چینی مصر سے درآمد کی جارہی ہے تو ضرور قیمت کم ہوجائے گی۔۔۔۔۔کیونکہ مطلوبہ پیمانہ پورا ہوچکا ہے۔ ویسے بھی منافع خوری وقت کی اہم ضرورت ہے چاہے ذخیرہ اندوزی سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ قدرت کے کہنے پر کیوں چلیں ہمیں کون سا ابھی بلاوا آرہا ہے؟چلیں آئیں ذرا گوگل سے سچائی معلوم کرتے ہیں۔ جون 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا "پانچواں بڑا ملک" ہے "گنے کی پیداوار" میں۔ برازیل 764 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ پہلے نمبر پر، پھر انڈیا 346ملین ٹن کے ساتھ دوسرے نمبر پر، تھائی لینڈ 103 ملین ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر پھر چین 95 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ چوتھے نمبر پہ اور پاکستان 81 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ پانچویں نمبر پر ۔برازیل، تھائی لینڈ اور پھر بھارت بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر دنیا کو چینی برآمد کرتے ہیں۔ 93 فیصد پوری دنیا کو گنا برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں۔ پھر یہ گنے کی پیداوار کہاں گئی؟اب آجائیں ذرا گندم کی پیداوار کی تفصیلات میں۔ دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے بڑے ممالک کی فہرست میں سب سے پہلے چین 135 ملین ٹن، بھارت دوسرے نمبر پر 103 ملین ٹن، روس تیسرے نمبر پر 77 ملین ٹن، امریکہ 50.8 ملین ٹن کے ساتھ چوتھے نمبر پہ، کینیڈا 34 ملین ٹن کے ساتھ پانچویں نمبر پہ، یوکرین 28 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ چھٹے نمبر پہ اور پاکستان 26 ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ دنیا کا "ساتواں" بڑا ملک۔ اس کے بعد آسٹریلیا کا نمبر آتا ہے جو کہ گندم برآمد کرنے والے بڑے ملکوں کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ اور پاکستان 30ویں نمبر پہ آتا ہے اس نے 6 ملین ٹن گندم 2020 میں برآمد کی۔یعنی گنا ہم دنیا میں پانچویں نمبر پر اور گندم ساتویں نمبر پر پیدا کرتے ہیں، پھر بھی ملک میں ان کی کمی!راقم تو سوچ ہی رہا ہے ذرا آپ بھی سوچئے اور کچھ سمجھ آئے تو سب کو سمجھائیں کہ آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین