• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادش بخیر۔ایک زمانہ تھا جب ملک میں ٹیلی فون لگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا ۔لوگ فون کی درخواست جمع کروانے کے بعد دھنیا پی کر سو جاتے اور پھر کئی برسوں بعد اس وقت آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے جب لائن مین انہیں یہ خوش خبری سناتا کہ ایکسچینج سے کھمبے تک تار بچھا دی گئی ہے ۔اس کے بعد ایک طویل انتظار ۔ پھر ایک دن انہیں مژدہ سنایا جاتا کہ جناب مٹھائی کا ٹوکرہ منگوا رکھیں ،تار کھمبے سے گھر تک پہنچ گئی ہے ۔اس کے بعد کئی ہفتوں تک لوگ اس تار کے ساتھ منسلک بے جان ٹیلی فون کو دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہتے اور بار بار ریسیور اٹھا کر اس کے مائیک میں یوں پھونکیں مارتے جیسے اس میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ایک دن وہ بھی آتا جب لائن مین کھمبے پر چڑھ کر تار میں کرنٹ دوڑاتا اور گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی، فون کی گھنٹی بجتی ،گھر والے ریسیور اٹھاتے اور مائیک میں اس قوت سے چیخ کر ہیلو بولتے کہ لائن مین کو ڈائریکٹ کھمبے تک آواز پہنچ جاتی۔مبارک سلامت کا شور مچتا،محلے والے اکٹھے ہو جاتے ،لائن مین کو”مٹھائی “ دی جاتی اور ٹیلی فون کے ڈائل کوزنجیر وں میں جکڑ دیا جاتا۔اس زمانے میں رانگ نمبرز اورٹرنک کالز ملانے کا ایڈونچر تو ایسا تھا جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔
اسی طرح بل جمع کروانا چند سال پہلے تک ایک درد ناک عذاب ہوا کرتا تھا،لوگوں کو گھنٹوں دھوپ میں لائن میں لگ کر یہ کام کرنا پڑتا ،اس کے لئے بنک میں سفارشیں ڈھونڈی جاتیں ،جو چالاک لوگ یہ کام منٹوں میں کروالیتے انہیں رشک و حسد سے دیکھا جاتا ۔ایسے ہی بنک سے پیسے نکلوانا یا جمع کروانا ایک نہایت بور کام سمجھا جاتاجس میں کئی گھنٹے برباد ہو جاتے،دفتر سے اس کام کے لئے باقاعدہ چھٹی لی جاتی تھی ۔اور کیا کسی کو یاد ہے کہ پندرہ بیس برس قبل پٹرول پمپ کس قسم کے ہوا کرتے تھے !پٹرول پمپ ایک نہایت ہی بیہودہ نقشہ پیش کرتے جہاں ناکارہ قسم کی مشینیں نصب ہوتیں جن کا میٹر پڑھا جاتا اور نہ یہ سمجھ آتی کہ اگر پونے چار گیلن پٹرول ڈلوایا جائے تو ایک گیلن میں کتنے لیٹر ہوتے ہیں اور ایک لیٹر پٹرول کی قیمت کو کس سے ضرب دے کر کس پر تقسیم کرنا ہے!
اب وہ زمانہ نہیں رہا ،اب زمینی فون دو سے تین دن میں لگ جاتا ہے ،نہ کوئی درخواست جمع کروانی پڑتی ہے اور نہ کسی لائن مین کو پیسے دینے پڑتے ہیں ،مفت ٹال نمبر پر آپ کی درخواست نوٹ کر لی جاتی ہے اور فون لگانے کے چارجز بل میں لگ کر آ جاتے ہیں اور آپ چاہیں تو اسی فون لائن کے ذریعے انٹرنیٹ اور ”شیشہ پرنٹ“ ٹی وی کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں اور موبائل فو ن نے تو خیر سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ،اس کے ذریعے گھر بیٹھے بیٹھے بل جمع ہو جاتا ہے،بنک جانے کی ضرورت ہی نہیں۔بینکنگ کی دنیا میں تو گویا انقلاب آ گیا ہے،چپے چپے پر اے ٹی ایم مشینیں لگی ہیں ،بنکوں کانقشہ بدل چکاہے، بنک میں کسٹمر کو بادشاہ کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے ۔پٹرول پمپس کی نحوست بھی اب ختم ہو چکی ہے،اب پٹرول پمپ پر جانا فضول نہیں لگتا بشرطیکہ آپ نے سی این جی کی لائن میں نہ لگنا ہو۔اسی طرح ملک میں بے شمار ایسی سہولتیں اب میسر ہیں جن کا پہلے تصور بھی محال تھا لیکن اس کے باوجود اگر آپ کوئی ایسا ٹی وی پروگرام دیکھیں جس میں میزبان راہ چلتے لوگوں کے منہ کے آگے مائیک رکھ کے کوئی سوا ل پوچھے تو اکثریت کا جواب ہو گا کہ ”کچھ نہیں بدلا۔“ حالانکہ ان سب کی زندگیوں میں بدلاؤ آ چکا ہے اگر انہی عام لوگوں سے پوچھا جائے کہ آج سے دس سال پہلے ان کی زندگی کا معیار بہتر تھا یا اب بہتر ہے تو یقینا وہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اب بہتر ہے ۔یقین نہیں آتا تو آپ خود اپنے جاننے والوں میں سے پانچ لوگ منتخب کریں اور ان سے کہیں کہ وہ اپنی موجودہ زندگی کا دس سال پہلے کی زندگی سے تقابل کریں۔آپ حیران ہوں گے کہ اکثریت کا معیار زندگی پہلے سے کئی گنا بہتر ہے تاہم یہ اور بات ہے کہ رونا وہیں کا وہیں ہے ۔یہ رونا کیاہے اور کیوں ہے ؟ اس کی وجہ خاصی دلچسپ ہے ۔
ایک تو انسانی نفسیات ہے کہ اگر آپ کسی آسودہ ترین شخص کے آگے بھی مائیک او ر کیمرہ رکھ کر حالات پر تبصرہ کرنے کو کہیں گے تو لا محالہ وہ بھی اپنا کوئی دکھڑا ہی سنائے گا کجا کہ راہ چلتے کسی عام آدمی کو کیمرے کے سامنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جائے ۔جتنے کاروبار ی حضرات آپ کو ٹی وی پر اپنا رونا روتے نظر آتے ہیں کیا آپ نے کبھی ان کو کسی بھی حال میں خوش دیکھا ہے ؟ اپنی نجی محفلو ں میں ان کی گفتگو بالکل مختلف ہوتی ہے ،وہاں یہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے کاروبار کی وسعت کی ڈینگیں مارتے ہیں لیکن جونہی ان کے آگے مائیک آن کروان کا رونا شروع ہو جاتا ہے!دوسری وجہ میڈیاہے۔ ایک عام آدمی جب ٹی وی پر یہ دیکھتا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ٹریفک اور پولیس کا نظام کس قدر مثالی ہے ، انسانی جان کو بچانے کے لئے ریسکیو کی ٹیمیں کیسے آن واحد میں پہنچ جاتی ہیں ،کس طرح بم دھماکے کرنے والے ملزموں کو چوبیس گھنٹوں سے پہلے دھر لیا جاتا ہے ،تو وہ یہی سب ترقی اپنے ملک میں بھی مانگتا ہے اور یہ مانگ بالکل جائز ہے مگر مسئلہ آبادی اور وسائل کا ہے ۔جب حکومت اپنا پورا زور لگا کر مختلف شعبوں کسی قدر ترقی کا دعوی کرتی ہے تو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہ دعوی ٰ کسی لطیفے سے کم نہیں لگتا اور یہی وجہ ہے کہ کیمرہ آن ہوتے ہی عام آدمی کا ٹیپ ریکارڈر بھی آن ہو جاتا ہے اور وہ حالات سے متعلق رٹی رٹائی باتیں بولنا شروع ہو جاتا ہے ۔
ایسا بالکل نہیں ہے کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ، مسائل کے اژدھا منہ کھولے ہمارے سامنے کھڑ ے ہیں اور ان مسائل کا سب سے زیادہ شکار وہ طبقہ ہوا ہے جسے ہم انگریزی میں لوئر مڈل کلاس یا سفید پوش کہتے ہیں کیونکہ اس طبقے کے لوگوں کی آمدن محدود ہے اور یہ اپنے آپ کو کھلا کھلا غریب کہلوا کر امداد کے طالب بھی نہیں ہوتے لیکن جن لوگوں کا معیار زندگی گزشتہ دس برس میں بہتر ہوا ہے اور وہ پھر بھی نا خوش ہیں ،دراصل وہ اپنے آپ سے نا خوش ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے طبقے سے نکل کر بالائی طبقے میں جانے کی کوشش کی (اور یہ کوشش بالکل جائز ہے) مگر ا ن کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں وہ اس سسٹم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور ساتھ ہی ان لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں جو اس کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ ناکام ہونا بد قسمتی نہیں ،ناکامی کا جواز تلاش کرنا بد قسمتی ہے ۔جب ہم اپنی ناکامی کا جواز تلاش کر لیتے ہیں ،جو کبھی سازشی تھیوریوں میں چھپا ہوتا ہے اور کبھی سسٹم کی نا انصافی میں ،تو دراصل ہم ایک اور ناکامی کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دو چار سال بعد نظام کی تبدیلی کا نعرہ ہمیں بہت پر کشش لگتا ہے کیونکہ یہ نعرہ دراصل ہماری ناکامی کو جواز بخشتا ہے۔ہمارے نزدیک تبدیلی کا مطلب ہے نظام تبدیل ہو،ہم خود تبدیل نہیں ہوں گے کیونکہ ہم تو پرفیکٹ ہیں !یہی حال رہا تو ایک دن کوئی تبدیلی جنس کا نعرہ لگائے گا اور ہم اس کے پیچھے بھی چل پڑیں گے !
تازہ ترین