• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کے حوالے سے ضابطہٴ اخلاق آنے کے بعد ضمنی الیکشن پر گفتگو ہو رہی تھی اور ایک وفاقی وزیر نذر گوندل سے ٹی وی پروگرام میں پوچھا گیاکہ ضمنی انتخابات میں تمام امیدواروں نے ضابطہٴ اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں تو ان کا جواب بڑا سادہ تھا، کہنے لگے جب الیکشن کمیشن زمینی حقائق کے اس قدر برعکس ضابطہٴ اخلاق بنائے گا تو یہی ہو گا۔ مجھے اس وقت ان کا یہ جواب بڑا عجیب لگا لیکن میں اس بات کی داد انہیں ضرور دیتا ہوں کہ انہوں نے بے لاگ بات کی اور کم از کم مجھے اس معاملے پر ذہنی مشقت کرنے پر مجبورکر دیا۔ جب نذر گوندل نے یہ بات کی، مجھے اس وقت انتخابی مہم کا کوئی عملی تجربہ نہیں تھا، آج مگر بات مختلف ہے، میں نے ملکی سطح پر اس الیکشن کی انتخابی مہم کا نہ صرف بغور مشاہدہ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ذاتی طور پر ان انتخابات میں انتخابی مہم کا تجربہ بھی حاصل کیا ہے اور اب میری حالت یہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ الیکشن کمیشن، ضلع انتظامیہ اور میونسپل اتھارٹیز و ڈیولپمنٹ حکام کو کوسوں یا اپنا سر پیٹوں۔ زمینی حقائق و ضروریات اور اس الف لیلوی کہانی (ضابطہٴ اخلاق) میں اتنا فاصلہ کہ کوئی ولی اللہ، کوئی مہاتما، ، کوئی سینٹ بھی اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ کوئی بات ہے کرنے والی!!!! اور پھر ان تما م اداروں کی عملدرآمد کے حوالے کارکردگی صفر۔ صرف دکھاوے کیلئے چند ایک نمائشی اقدامات اور نتیجہ وہی ، طاقتور، بااثر اور پیسے کی بارش کرنے والے امیدواروں کیلئے سب کچھ جائز۔ اتنی ہمت اور حوصلہ کسی میں بھی نہیں کہ ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں، خصوصاً ”منجھے“ ہوئے سیاستدانوں پر کوئی ہاتھ ڈال سکے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی کوشش کہ مصیبت ان کے گلے نہ پڑے اور وہ ضلع انتظامیہ پر سارا ملبہ ڈال رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے افسران ”منجھے“ ہوئے سیاستدانوں سے پنگا لینے کے خیال سے بھی پریشان ہو جاتے ہیں وہ رپورٹیں لکھ لکھ کر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو بھیج رہے ہیں اور میونسپل ادارے و ڈیولپمنٹ اتھارٹیز الیکشن کمیشن اور ضلعی انتظامیہ پر سارا نزلہ گرانے میں مصروف ہیں۔ یقینا ان سارے اداروں میں کچھ لوگ ضرور ہوں گے جو بساط بھر کوشش کر رہے ہوں گے لیکن ان کی کوششوں سے رتّی برابر بھی فرق نہیں پڑ رہا۔
دوسری طرف امیدواروں میں ضابطہٴ اخلاق کی دھجیاں بکھیرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ الیکشن میں تو اللہ جانتا ہے کہ کون جیتے گا لیکن ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے میں ہر حلقے سے مضبوط امیدوار جیت چکے ہیں۔ ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی ویسے تو ہمارے تقریباً تمام مضبوط امیدواروں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر کسی پریشان خیال کے ذہن سے اس طرح کے خیال کا گزر ہو بھی گیا تو ایک سو ایک جواز۔ جو اخلاقیات کی بات ہی نہیں کرتے یا جنہیں ”جھوٹ بولنا نہیں آتا“ ان سے شاید ہی کوئی ذی شعور انسان توقع رکھتا ہو گا لیکن جنہوں نے ایک کتاب کا نظام نافذ کرنا ہے اور جنہوں نے قوم کے ساتھ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا ہے، ان سے سوال تو کیا جائے گا اور کیا جانا چاہئے۔کیونکہ الیکشن کمیشن کا ضابطہٴ اخلاق تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنایا گیا ہے، اس لئے اس طرح کا ”انتہائی قابلِ عمل ضابطہٴ اخلاق بنانے اور پھر اس پر من و عن عملدرآمد کرنے یا کرانے “پر ان کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے۔
ضابطہٴ اخلاق میں لکھا ہے کہ ہر امیدوار کو انتخابات کے بعد ایک بیانِ حلفی جمع کرانا پڑے گا کہ اس نے اپنی مہم پر پندرہ لاکھ (ایم این اے کیلئے) یا دس لاکھ (ایم پی اے کیلئے) سے زیادہ روپے خرچ نہیں کئے (یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر کوئی امیدوار کسی دوسرے کا نام استعمال کر کے خرچہ کرے یا کوئی سرمایہ لگانے والے اس کی مہم میں پیسے خرچ کریں کیا وہ اس پندرہ لاکھ یا دس لاکھ میں گنے جائیں گے یا نہیں ، اگر گنے جائیں گے تو ان کا اس بیانِ حلفی کے ڈرافٹ میں ذکر کیوں نہیں ہے اور اگر نہیں گنے جائیں گے تو پھر اس پندرہ لاکھ یا دس لاکھ والی شرط کا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔ آپ کو ابھی سے مبارک دےئے دیتا ہوں کہ ہمارے جیتنے اور ہارنے والے تمام امیدواران، ماسوائے ان کے جو شوقیہ الیکشن لڑتے ہیں اور سو دوسو ووٹ لے لیتے ہیں، تمام کے تمام ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ بیانِ حلفی دے گزریں گے۔ الیکشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صرف ایک لٹکنے والے پینافلیکس کی اوسط قیمت کوئی تین سو روپے کے قریب ہے اور بڑے شہروں میں ایک ایک حلقے میں دو تین مضبوط امیدواروں کی طرف سے لگائی جانے والے اس طرح کی فلیکسز کی تعدار ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک ہے، صرف ان فلیکسز کی قیمت تین کروڑ سے ساڑھے چار کروڑ تک بنتی ہے اور یہ الیکشن کے آٹھ دس موٹے خرچوں میں سے صرف ایک خرچہ ہے۔ باقی آپ خود حساب کرتے جائیں اور قوم کو، مندرجہ بالا تمام اداروں کو اور اپنے آپ کو اتنے صادق اور امین ممبرانِ اسمبلی منتخب کرنے پر پیشگی مبارک دیتے جائیں۔ اسی طرح کارنر میٹنگوں میں شمولیت کیلئے جانے کے علاوہ بڑی بڑی کار ریلیوں پر پابندی ہے، میٹنگوں اور جلسوں کے علاوہ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے، مخصوص شدہ جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر کارنر میٹنگ یا جلسہ کرنے پر پابندی ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان ساری باتوں پر کتنا عملدرآمد ہو رہا ہے۔
پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اس ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں کوئی سزا اس میں شامل نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اور قانون میں دی گئی ہو لیکن اگر ایسا ہے تو متعلقہ اداروں کے ہاتھ کس نے روکے ہوئے ہیں ان مضبوط امیدواروں کے خلاف کارروائی کرنے سے۔ میری معلومات کے مطابق ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ امیدواروں کی طرف سے ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی روکنے کیلئے ضلعی انتظامیہ ان کے خلاف کس قانون کی کس دفعہ کے تحت کارروائی کرے گی۔ ایک خیال یہ تھا کہ دفعہ144کا نفاذ کر کے خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا ہے، لیکن یہ پنجابی محاورے کے مصداق ”گونگلوؤں“ سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ کوئی ضابطہٴ اخلاق نظر آ رہا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کی کوئی ساکھ باقی بچی ہے۔ ابھی الیکشن میں ایک ہفتہ باقی ہے لیکن اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے، میں یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کر رہا کہ ان اداروں نے اس الیکشن سے وابستہ پاکستانی قوم کی پہاڑوں جیسی بلند توقعات کو خاک میں ملا دیا ہے۔
ایسی منتخب اسمبلیاں جس کے ”معزز“ اراکین کا آغاز ہی جھوٹے حلفیہ بیانوں سے ہوگا، وہ اس ملک میں خاک بہتری لائیں گے۔ ان انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے ”معزز“ ارکانِ اسمبلی بھی اس ملک پر پانچ سال حکومت کریں گے اور بس۔ آثار بتا رہے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کیسی ہو گی۔
تازہ ترین