• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کالم کے عنوان پر نہ جائیں‘ میں آج کسی سیاسی بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مجھے آج انتخابی جھمیلوں کی بات نہیں کرنی۔11 مئی کو تحریک انصاف کی ”بلے بلے“ ہو یا ہر شہر میں شیر دھاڑتا پھرے‘ میں آج اس لاحاصل بحث میں نہیں الجھنا چاہتا۔ مجھے کسی جماعت کی ”کتاب“ کھولنے میں دلچسپی ہے نہ کسی کی ”پتنگ“ اڑانے کا شوق ہے۔ میرا خیال ہے یہ سب ”تیر“ ہمارے سینے پر ہی پیوست ہوتے ہیں لہٰذا آج میں ان نوجوانوں کے مشاغل کو اپنے ”ترازو“ میں تولنا چاہتا ہوں جو صحبتِ زاغ میں پروان چڑھے ہیں اس لئے اڑنے سے قاصر ہیں۔ یہ شاہین صفت نوجوان اپنی فطری جبلت کے سبب کرگسی ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں مگر فیس بک اور ٹویٹر پر دل کی بھڑاس نکالنے کے سوا کچھ نہیں کرپاتے۔ یہ فریب خوردہ شاہین آج کل سیاسی جماعتوں کے پھینکے ہوئے دانے چننے میں مصروف ہیں۔ کیا تبدیلی کے نعرے لگانے والے نوجوان کو معلوم ہے کہ عمران خان فیکٹر کے باوجود انتخابی دنگل میں اترنے والے امیدواروں کی اہلیت و قابلیت کیا ہے؟ جو امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے صرف 4 کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے اور محض6/امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے ایم فل کیا ہے یعنی0.1 فیصد امیدواروں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے ان میں سے بھی کس کس کی ڈگریاں جعلی ہیں یہ وقت آنے پر پتہ چلے گا۔ 7.3 فیصد امیدواروں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ انگوٹھا چھاپ ہیں‘ 22 فیصد امیدواروں کا تعلیمی ریکارڈ ہی دستیاب نہیں اور 19 فیصد انڈر میٹرک ہیں یا اس سے بھی کم پڑھے لکھے ہیں۔ یہ اندھے‘ اپاہج اور معذور کیسے قوم کا مقدر بدلیں گے؟ میرے خیال میں وہ عقل کے اندھے قابل رحم ہیں جو آنکھیں تو رکھتے ہیں مگر عاقبت نااندیش ہیں‘ وہ اپاہج اور معذور دھرتی پر بوجھ ہیں جو ہاتھ پاوٴں سلامت ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے اور وہ گونگے اور بہرے ”اسپیشل“ ہیں جو قوت گویائی کے باوجود چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور سماعت درست ہونے کے باوجود کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب برصغیر کے امراء و روٴسا اور غرباء کے دولت خانے میں حسبِ استطاعت بہت سے خانے ہوا کرتے تھے مثلاً مہمان خانہ‘ سلاح خانہ‘ جواہر خانہ‘ مگر جس گھر میں کتب خانہ نہ ہوتا اسے سب سے قلاش اور مسکین ترین انسان کا گھر سمجھا جاتا تھا۔ تجوریاں خالی رہتیں مگر الماریوں میں سلیقے سے رکھی کتابوں کو سب سے قیمتی متاع اور گراں قدر اثاثہ سمجھا جاتا مگر آج چمکتے دمکتے گھروں میں ایل ای ڈی اور ایل سی ڈی کا سائز اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے‘ پورچ میں کھڑی گاڑیاں خوشحالی کی علامت ہیں‘ ڈرائنگ روم میں لگے فانوس اور ہاتھ میں تھامے موبائل فون سے انسان کی معاشرتی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان سیاستدانوں کی کم علمی پر کیا مرثیہ خوانی کروں‘ ہمارے ”شہباز“ ہی جہالت و گمراہی کے گنبد پربسیرا کئے ہوئے ہیں۔ یہاں سقراطی بقراطی دانشوروں اور افلاطونی فلاسفروں کی تو بہتات ہے مگر کتابیں ندارد۔ سقراط نے کہا تھا جس گھر میں کتابیں نہیں وہ زندوں کی آماجگاہ کہلانے کا حقدار نہیں‘ مُردوں کا قبرستان ہے۔ مگر ہمارے ہاں کتابیں امراء کے گھر الماریوں کی زینت بنتی بھی ہیں تو محض دکھاوے کے طورپر۔ ایک عالم زندگی بھر قلم و قرطاس سے مستغنی نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں بہت سے”علامے“ ملیں گے جو دو چار کتابیں پڑھ کر اپنے آباوٴ اجداد کو خبطی سمجھنے لگتے ہیں۔ میں تو تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھتا ہوں تو امام غزالی ہماری حماقتوں پر ہنستے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں رسمی تعلیم مکمل ہوتے ہی کتابوں کو خدا خافظ کہنے کا رجحان ہے مگر38 برس کی عمر میں امام غزالی جیسا صاحب علم شخص جامعہ نظامیہ کے رئیس الجامعہ یعنی وائس چانسلر کی حیثیت سے سبکدوش ہوتا ہے اور حصول علم کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ دس سال بعد ”تہافتہ الفلاسفہ“ نامی تصنیف کے ساتھ واپس آتا ہے تو یونان جیسے علمی و فکری معاشرے میں فلسفہٴ غزالی کی دھوم مچ جاتی ہے مگر ہم حرماں نصیب تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔
انگریزوں نے انیسویں صدی میں برصغیر کے طول و عرض کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو مقامات پر کتب خانے قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو کلکتہ اور لاہور کا انتخاب کیا گیا۔ کلکتہ میں امپیریل لائبریری کے نام سے کتاب گھر کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور لاہور کی بارہ دری میں لائبریری کی داغ بیل ڈالی گئی۔ کلکتہ کی امپیریل لائبریری تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی قومی لائبریری میں تبدیل ہو گئی اور آج بھی پورے جوبن پر ہے مگر بارہ دری میں قائم لائبریری پنجاب پبلک لائبریری میں تبدیل ہونے کے باوجود کس کسمپرسی اور لاچارگی کا نمونہ پیش کر رہی ہے یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ہماری علم دوستی کا تو یہ عالم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سردار دیال سنگھ کی کاوشوں سے بننے والی دیال سنگھ لائبریری ہمارے حصے میں آئی تو یار لوگوں نے بے کار و فالتو جہیز قرار دے کر اس لائبریری کو مقفل کر دیا یہاں تک کہ ہجرت کر کے آنے والے مسلمان اس گوشہ ٴ عافیت میں پناہ گزین ہو گئے۔ سالہا سال تک یہ مہاجرین کتاب دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے تاریخی کتابوں کے اوراق جلا کر علم کی تپش سے مستفید ہوتے رہے اور علم کی اس ہدت سے ہانڈیاں بھی پکتی رہیں۔ 15 سال بعد کسی کو ہوش آیا تو اس وقت تک لاکھوں کتابیں مکینوں کے خون میں رچ بس چکی تھیں۔
وہ نوجوان جن پر ہمیں بہت ناز ہے‘ جن سے ہمیں بے شمار امیدیں اور لاتعداد توقعات ہیں وہ کتابیں تو پڑھتے ہیں مگر اس وقت جب نیند نہ آ رہی ہو۔ ایسا نہیں کہ یہ نوجوان لائبریریوں میں نہیں جاتے مگر یہ نوبت تب آتی ہے جب سی ایس ایس کی تیاری کرنی ہو‘ کسی گرل فرینڈ کو موعوب کرنا ہو یا دوستوں میں رعب و دبدبہ بڑھانا ہو۔ چونکہ آج کل بیشتر لائبریریاں بھی ڈیجیٹل ہو گئی ہیں اور ان میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے لہٰذا وہاں بھی سوشل میڈیا پر توجہ مرکوز رہتی ہے‘ اگر بہ امر مجبوری امتحان کی تیاری کے لئے کتابیں کھولنے کی مشکل آن پڑے تو یہ شاہین صفت بچے قینچی‘ بلیڈ‘ کٹر جیسے اوزاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ موقع ملے تو آنکھ بچا کر پوری کتاب بھی غائب کی جا سکتی ہے کیونکہ علم کی چوری‘ چوری نہیں ہوتی۔ یہ علم دوست نوجوان کسی دوست یا لائبریری سے کتاب عاریتاً لے کر واپس کرنے کو ناقابل معافی گناہ سمجھتے ہیں اور کسی پرلے درجے کے گھٹیا شخص کے اس قول پر قائم و دائم رہتے ہیں کہ جو کتاب پڑھنے کیلئے کسی کو ادھار دیتا ہے وہ بے وقوف شخص ہے مگر جو شخص کتاب ادھار لینے کے بعد واپس کر دیتا ہے وہ اس سے بھی بڑا بے وقوف ہے۔ اگر ذوق مطالعہ سے عاری نوجوان دل پر پتھر رکھ کر کتاب پڑھنے کی ہمت کر بھی لے تو انداز گفتگو سنورتا ہے نہ طرز تحریر نکھرتا ہے‘ تخیل کا غنچہ چٹختا ہے نہ سوچ کا آنگن مہکتا ہے‘ خیالات کو رفعت ملتی ہے نہ فکر کو وسعت حاصل ہوتی ہے‘ پڑھنے کے باوجود قاری بے فیض رہتا ہے کیونکہ نگاہیں کتاب پر ہوتی ہیں اور دل و دماغ پر کسی کتابی چہرے کا عکس سوار رہتا ہے۔ شباب کے سوا نیزے پر کھڑے ان نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کافی کڑوی لگے تو اس کا ٹیسٹ ڈویلپ کرنے کی جستجو کر سکتے ہیں مگر کتب بینی کا شوق و ذوق ابھارنے کیلئے ٹیسٹ (Taste)ڈویلپ کرنے کے عمل سے نہیں گزرتے۔ مگر پھر بھی انگوٹھا چھاپ سیاستدانوں کے آگے آنے پر کڑھتے ہیں۔ جمشید دستی جیسے جعلی ڈگری ہولڈر کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنے پر جلتے ہیں… آخر کیوں؟ جب کتاب کلچر ختم ہو گا تو یہی جاہل‘ اجڈ اور گنوار لوگ ہی منتخب ہوں گے۔ اگر آپ واقعی تبدیلی کے خواہشمند ہیں تو 11 مئی کو تعلیم کو ووٹ دیں‘ کتاب کے انتخابی نشان کو نہیں صاحب کتاب کو ووٹ دیں‘ خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اور اگر کتاب پڑھتے ہوئے کوئی کتابی چہرہ خلل ڈالے‘ دخل در معقولات کا سبب بنے تو ہٹلر کی یہ خوبصورت بات یاد کرلیں‘ ایک خوبصورت لڑکی خوبصورت مستقبل کی ضامن نہیں ہو سکتی مگر خوبصورت و درخشاں مستقبل بہت سی خوبصورت لڑکیوں کو آپ کی جھولی میں ڈال سکتا ہے۔
تازہ ترین