• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور موجودہ رکن قومی اسمبلی ایاز صادق مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما ہیں۔ سیاست میں اُن کو ایک سنجیدہ سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر نے اُن کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگرچہ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اُن کی گفتگو کا محور حکومت تھی اور اُنہوں نے تو پاک فوج کی قیادت کا ذکر کیا ہے، نہ ہی عسکری قیادت کو مورودِ الزام ٹھہرانا اُن کی سوچ یا مطلب تھا لیکن اُن کی وضاحت کے باوجود یہ بات اہم ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس وقت کس موقع پر کس بات کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ دشمن ملک اُن کی اِس بات کو کس طرح اپنے مطلب کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ بعض باتیں خفیہ ہوتی ہیں اور اُن کو ہمیشہ خفیہ ہی رکھا جاتا ہے کہ ایسی باتیں افشا کرنے سے ملک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور دشمن کو ایک معمولی بات سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ ایاز صادق کی قومی اسمبلی میں کی گئی باتوں سے اِس حلف پر بھی ضرب لگتی ہے جو اُنہوں نے اُٹھایا تھا جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومتی فرائض کی ادائیگی کے دوران خفیہ باتوں کو ہمیشہ خفیہ ہی رکھے گا، جو اُن کے سامنے کی جائیں گی یا اُن کی نظر سے بطور تحریر گزریں گی۔سابق اسپیکر قومی اسمبلی کی باتوں سے نہ تو اُن کو کوئی فائدہ پہنچنا تھا، نہ اُن کی جماعت کو، پھر اُن جیسے سمجھدار سیاستدان نے یہ بےموقع راگ الاپنے کا کیوں سوچا اور اِس تقریر کا مطلب و مدعا کیا تھا۔ اُن کے بقول اُنہوں نے بطور اپوزیشن سیاستدان کے وزیر خارجہ کی سوچ اور کارکردگی پر تنقید کی تھی۔ فوج جیسے اہم ترین قومی ادارے اور اِس کی قیادت کے خلاف بات کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُن کی تقریر نہایت قابلِ مذمت ہے۔ حکومت یا وزیر خارجہ کی کارکردگی پر تنقید کے لئے اور بہت سی باتیں تھیں۔ وہ خارجہ پالیسی پر بات کر سکتے تھے۔ وزیر خارجہ اور حکومتی کارکردگی پر تنقید کر سکتے تھے لیکن ایسی بات جس میں کسی بھی طرح عسکری اداروں کے تعلق کی بات ہو، اُس سے ہر صورت گریز کرنا چاہئے تھا۔ دوسری طرف بعض حکومتی وزراء اور مشیروں نے اِس تقریر کو اتنا اچھالا کہ بات کا بتنگڑ بنا دیا اور ایک طرح سے اُس تقریر اور بےمعنی باتوں کو اتنا اہم بنا دیا کہ جس کو نہیں بھی معلوم تھا وہ بھی دوسروں سے اِس بارے میں دریافت کرنے لگا کہ ایاز صادق نے ایسی کیا بات کی ہے۔حکومتی وزراء کی بیان بازی نے دشمن کو بھی الرٹ کر دیا اور وہ اِس بات کو اپنے مطلب کے لئے اہم بنا کر اُچھالنے لگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایاز صادق نے ناقابلِ تلافی غلطی کی ہے۔ اِس وقت جس کے بارے میں اُنہوں نے بات کی ہے پاکستان کی پوزیشن بھارت سمیت پوری دنیا پر واضح تھی اور وہ تھی پاکستان کی فتح اور دشمن کو مغلوب کرنے کی پوزیشن۔ ایسی صورتحال میں وزیر خارجہ یا کسی بھی پاکستانی کے خوفزدہ ہونے کی تک ہی نہیں بنتی۔ جہاں تک ابھی نندن کی واپسی کا تعلق ہے تو اِس کی واپسی قطعی کسی خوف کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اِس کو واپس کرنے کا مطلب صرف امن کا پیغام تھا جس کو پوری دنیا نے سراہا۔ علاوہ ازیں ابھی نندن کی واپسی میں بھارت کے لئے یہ پیغام بھی تھا کہ آئندہ ایسی حرکت کا نہ سوچنا کیونکہ جس کو تم نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بھیجا تھا، پاکستان نے اُس کے جہاز کو تباہ کرکے اُس کو گرفتار کیا۔ یہ ایک طرح سے بھارت کے منہ پر طمانچہ تھا۔ اِس میں ٹانگیں تو بھارت کی کانپی تھیں، پسینہ تو مودی سرکار کو آیا تھا کہ پتا نہیں پاکستان کا اگلا قدم کیا ہوگا۔

ابھی نندن کی واپسی مودی سرکار کے چہرے پر کالک تھی، جو ابھی تک لگی ہوئی ہے۔ ایاز صادق کے بیان کی وضاحت وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی کر دی ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ایاز صادق نے تو اپنی تقریر میں عسکری قیادت کا نام ہی نہیں لیا تھا۔ یہ تو بھارتی میڈیا نے اِس تقریر کو توڑ مروڑ کر خود اِس میں عسکری قیادت کو شامل کیا۔ بہر حال اب یہ بحث ختم ہونی چاہئے کہ اِس کو طول دینے سے نقصان ہے، فائدہ کوئی نہیں۔ سیاستدانوں کو بھی اہم ترین اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے سے باز رہنا چاہئے۔

تازہ ترین