• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں میں کا موذی مرض بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ آپ فقیر سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں میں کے مرض میں مبتلا مریض آخرکار کیا اپاہج ہو جاتا ہے؟ لنگڑا لولا ہو جاتا ہے؟ کبڑا ہو جاتا ہے؟ جی نہیں۔ میں میں کے مرض میں مبتلا مریض کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ آپ جب بھی میں میں کے مرض میں بری طرح مبتلا شخص سے ملیں گے وہ آپ کو اچھلتا، کودتا چھلانگیں لگاتا ہوا ملے گا۔ جب دیکھو وہ آپ کو دوڑتے ہوئے نظر آئے گا۔ پس ثابت ہوا کہ میں میں کے موذی مرض میں مبتلا مریض لولا لنگڑا اور اپاہج نہیں ہوتا۔ وہ ہم آدمیوں سے زیادہ چاق و چوبند دکھائی دیتا ہے۔ آپ کا حیران ہونا اور کچھ کچھ پریشان ہونا جائز ہے۔ آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کس نوعیت کا مرض ہے کہ جسکی علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔ کھانسی، نہ نزلہ، نہ چھینکیں۔ سر درد، نہ ورم، نہ پیٹ میں مروڑ۔ آپ کی سوچ قابلِ ستائش ہے۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان میں سوچنے والوں کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے؟ لوگ سوچتے ہیں مگر ڈر کے مارے اپنی سوچ کسی پر ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ کئی ایک سوچنے والے محض اس لئے غائب کردیے گئے تھے کہ وہ بول پڑے تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ میں میں کا مرض آپ کو مبہم لگ رہا ہے۔ میں مثالیں دیکر آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں میں کا مرض کسی کو لگ جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے اور مرض کی علامتیں کیا ہیں۔ ایک صاحب بات سنتے ہی اپنی بپتا زورشور سے سنانے بیٹھ جاتے تھے۔ کہیں پر کسی کی میت پر آئے ہوئے لوگوں کے جم غفیر میں باتیں ہورہی تھیں۔ میں میں کے موذی مرض میں مبتلا ہمارے مریض نے فوراً کہا۔ ’’جب میں مر گیا تھا، تب میری میت پر ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں کا جم غفیر دیکھا گیا تھا‘‘۔کسی جگہ اعضافی سبیل اللہ دینے پر گرما گرم بحث ہورہی تھی۔ ایک شخص کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے جس نے اپنا ایک گردہ کسی ٹرک ڈرائیور کو دان کر دیا تھا۔ میں میں کے مرض میں مبتلا شخص بڑے تحمل سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے گرجدار آوازمیں کہا ’’ایک گردے کا دان سب دیتے ہیں۔ ایک تانگے والے کو میں نے اپنے دونوں گردے دان میں دے دیے تھے۔ ایک گردہ اس نے خود کو لگوایا ایک گردہ اپنے گھوڑے کو لگوایا۔ دونوں آج کل راوی کے کنارے خوش وخرم نظر آتے ہیں‘‘۔

لگتا ہے بات اب بھی آپ کو مبہم مبہم سی لگ رہی ہے۔ بونگیاں مارنے والے کو پنجاب میں پھنے خاں کہتے ہیں۔ میں میں کے مرض میں مبتلا شخص بظاہر اپنے بارے میں بونگیاں مارتا ہے اس لیے پھنے خاں کہلوانے میں آتا ہے۔ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔ پھنے خاں اپنے کئے ہوئے کارناموں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ جب بھی اپنے کارناموں کا ذکر کرتا ہے، سینہ چوڑا کرکے بات کرتا ہے۔ اس کا پھیلا ہو اسینہ دیکھ کرگمان ہوتا ہے کہ وہ ازسر نو اپنا کارنامہ پھر سے سر انجام دیکر ہمیں دکھائے گا۔ فٹبالر میسی نے ایک میچ میں اگر چھ بار گول کرکے دو ہیڑک کی ہیں تو ہمارا پھنے خان چھاتی ٹھوک کر کہے گا کہ میں نے فلاں میچ میں فلاں ٹیم کے خلاف نو گول کرکے تین ہیٹرک کی ہیں۔ اگر ان کو پتہ چل جائے کہ فٹبالر رونالڈو نے ایک میچ میں نوگول کرکے تین ہیٹرک کی تھیں، تو فوراً سے پیشتر پھنے خان آپ کو بتادے گا کہ وہ ایک میچ میں اٹھارہ گول کرکے چھ مرتبہ ہیٹرک کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکا ہے، جو کہ روز آخر تک دائم رہے گا۔ مگر میں میں کے مرض میں مبتلا شخص آنے والے وقت میں کیسے کیسے کارنامے دکھانے کا اٹل ارادہ رکھتا ہے، وہ آپ کو بتادےگا، بلکہ بار بار بتاتا رہے گا۔ سر ایڈ منڈ ہلیری نے ہمالیہ کی چوٹی ایوریسٹ پر پائوں رکھا تھا۔ ایوریسٹ کی چوٹی فتح نہیں کی تھی۔ فتح کرنے والے لوٹ کرنہیں جاتے۔ میں میں کے مرض میں مبتلا ہمارے شخص نے کہا ہے۔ ’’ایک روز میں کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگاکر مائونٹ ایوریسٹ کی چوٹی سر کرلوں گا۔ ایک فاتح کی طرح ڈیرا ڈال کر میں وہیں بیٹھ جائوں گا‘‘۔اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ پھنے خاں ماضی میں سرانجام دیے ہوئے اپنے کارناموں کا ذکرکرتے ہیں۔ میں میں کے مرض میں مبتلا شخص آنے والے وقت میں یعنی مستقبل میں کیسے کیسے کارنامے کرکے دکھانے کا اٹل ارادہ رکھتا ہے، ان کا ذکر کرتا پھرتا ہے۔ ’’میں جنگل میں دنگل کرکے دکھائوں گا۔ سب ڈاکوئوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون ڈالوں گا‘‘۔میں میں کے مرض میں گرفتار مریض سے کسی ڈرے ہوئے شخص نے پوچھا ’’سر آپ کیا پولیس والے ہیں کہ ڈاکوئوں کو پکڑیں گے۔ آپ کے پاس کیا اور کوئی کام نہیں ہے؟‘‘۔میں میں کے مرض میں مبتلا مریض نے کہا ’’میں پولیس والا ہوں۔ چوروں کو پکڑتا ہوں۔ جج بن کر ان پر مقدمہ چلاتا ہوں۔ اور پھر میں خود ہی ان کو سزا دیتا ہوں‘‘۔سہمے ہوئے شخص نے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا ’’سر، لگتا ہے، آپ امیتابھ بچن کی فلم شہنشاہ سے بہت متاثر ہیں۔ کتنی مرتبہ دیکھی ہے آپ نے فلم شہنشاہ؟‘‘۔

سوال پوچھنے والا غائب ہو گیا۔ پھر وہ کسی کو کبھی نظر نہیں آیا۔

تازہ ترین